ڈھاکا (جیوڈیسک) بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمٰن نظامی کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں سزائے موت دیئے جانے کے بعد ملک میں جاری احتجاج فسادات کی شکل اختیار کرگیا، جماعت اسلامی کے کارکنوں کی جانب سے دارالحکومت ڈھاکا سمیت دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، پولیس نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے جبکہ پولیس نے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
بدھ کو بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق جنگی جرائم کے ٹربیونل کی جانب سے جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد ملک میں جاری احتجاج فسادات کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ پاکستان سے نرمی و پیار کے حامل افراد اور تنظیموں پر سخت سے سخت سزا لگا رہی ہے اور ان کے جلسے جلوسوں پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ گزشتہ روز بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمٰن نظامی کو 1971میں پاکستان سے محبت اور پاک فوج کی حمایت کرنے پر انسانیت کے خلاف جرائم بشمول نسل کشی، تشدد اور جنسی زیادتی کےالزامات لگاکر سزائے موت سنائی تھی۔
جماعت اسلامی نے ایک بیان میں کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام بہت حیران اور افسردہ ہیں اس فیصلے کے خلاف اتوار سے 48گھنٹے کیلئے ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے ٹربیونل کے فیصلے کے فوراً بعد مظاہرہ کیا اور اس دوران لگ بھگ 90لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے 2010ء میں ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا تھا جس کے ذمے 1971ء میں ملک کی ’’جنگ آزادی‘‘ کے دوران تقریباً 30لاکھ لوگوں کی ہلاکت اور ہزاروں خواتین کی عصمت دری کے مبینہ واقعات کی تحقیقات کرکے ان میں ملوث افراد کو سزائیں دینا ہے۔