تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ جماعت اسلامی نے حکومت پر دبائو بڑھانے کے فاٹا سے اسلام آبادتک” فاٹا انضمام لانگ مارچ”شروع کیا۔یہ مارچ راستے میںجگہ جگہ ،نوشہرہ،اٹک اور ٹیکسلاء ُرکتا رُکاتا اور عوام کو فاٹا کے خبیرپختونخواہ میں ضم ہونے کی افادیت بیان کرتا ہوا صبح دس بجے فیض آبادپہنچے گا۔ اس کے بعد امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق صاحب کی قیادت میں فیض آباد سے پارلیمنٹ کے سامنے پہنچے گا اور دھرنا دے گا۔ جماعت اسلامی خیبرپختونخواہ کے امیر جناب مشتاق احمد خان صاحب نے اعلان کیا ہے کہ جب تک حکومت فاٹا کا صوبہ خیبرپختونخواہ میں انضمام کا اعلا ن نہیں کرتی ،مارچ کے شرکاء واپس فاٹا اور اپنے صوبے خیبرپختونخواہ نہیں جائیں گے۔ صبح١٠ بجے رولپنڈی اور اسلام آباد، جماعت اسلامی کے کارکن فاٹا انضمام مارچ کے شرکاء سے یکجہتی کے لیے ان کے استقبال کے لیے فیض آبا د پر موجود ہو نگے۔
پاکستان کی ساری بڑی سیاسی پارٹیاں، جس میں جماعت اسلامی،تحریک انصاف،پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی شامل ہیں نے فاٹا کا خیبرپختونخواہ صوبے کے ساتھ الحاق کی حامی ہیں۔ کئی بار یہ پارٹیاں اپنے اس مؤقف کے لیے احتجاج اور پارلیمنٹ میں تقاریریں بھی کر چکی ہیں۔فاٹا کے ممبر پارلیمنٹ بھی اپنے مؤقف اور احتجاج ریکارڈ کر چکی ہیں۔ پورے ملک کے عوام اپنے فاٹا کے بہادر قبائلی سپوتوں کو خیبرپختونخواہ صوبے میںشامل کرنے کے حق میں ہیں۔ خود نوازلیگ بھی فاٹا کو خیبرپختونخواہ صوبے میں انضمام کے حق میں تھی۔ مگر نواز لیگ حکومت کے دو اتحادی، مولانا فضل الرحمان اور اورقوم پرست محمود اچکزئی صاحبان فاٹا کے خیبرپختونخواہ میں شمولیت کے خلاف ہیں۔بلکہ محمود اچکزئی تو جہاں تک فرما چکے ہیں کی خیبرپختونخواہ افغانستان کا حصہ ہے۔ جو شخص پاکستان میں رہتا ہے۔پاکستان کا کھاتا ہے وہ پاکستان کے ایک حصے کو افغانستان کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس قسم کے لوگ دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ پاکستان کی لڑائی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس پر نوازحکومت خاموش ہے بلکہ نا اہل وزیر اعظم کی ایما پر ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔
جس کا مظاہرہ پارلیمنٹ کے جاری سیشن میں دیکھنے کو ملا۔جبکہ اس سے قبل نواز لیگ نے خود سینیٹر سرتاج عزیز صاحب کی صدارت میں پارلیمنٹ ممبران کی ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی نے بھی فاٹا کے خیبرپختونخواہ کے ساتھ شامل ہونے کی سفارش کی ہے۔ اس سے قبل نا اہل وزیر اعظم نواز شریف صاحب بھی فاٹا کے خیبرپختونخواہ میںشامل ہونے کا اقرار کر چکے ہیں۔اب صر ف پارلیمنٹ میں اس کے لیے قانون سازی ہونی ہے۔ روٹین کے مطابق پارلیمنٹ کی کاز لسٹ ایک دن پہلے بنائی جاتی ہے۔اس لسٹ میں قانون سازی کے لیے فاٹا کے اس مسئلہ کو شامل کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت سپریم اور ہلائی کورٹ کا دائرہ فاٹا تک بڑھانا تھامگر بعد میںجمعیت علمائے اسلام( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب نے وفاقی وزیر سیفران ریٹائرڈ لفٹینیٹ جرنل عبدالقادر بلوچ صاحب کر فون پر سخت ترین دھمکی دی کہ اگر پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں فاٹا کے خبیرپختونخواہ میں شمولیت اور سپریم کورٹ کا دائرہ فاٹا تک بڑھانے کے لیے کاز لسٹ میں سے اس کو نکالا نہ گیا تو جمعیت علمائے اسلاف( ف)حکومت سے فوراً علیحدگی کا اعلان کر دے گی۔اس دھمکی میں آکر نواز لیگ حکومت نے کاز لسٹ میں سے فاٹا کے لیے قانون سازی کے لیے رکھے گئے ایجنڈے کو نکال دیا۔جمعیت علمائے اسلام( ف) کے ذرائع کے مطابق حکومت نے نیاآڈر آف دی ڈے جاری کیاجس میں سے فاٹا کے متعلق شک کو نکال دیاگیا۔ ایک دن پہلے کچھ ایجنڈا دیا اور دوسرے دن ایجنڈے میں سے فاٹا کو نکال دینے پر ساری اپوزیشن برہم ہو گئی۔پارلیمنٹ میں نا اہل وزیر اعظم کے مشہور و معروف رُونے والے نعرے طنزیہ لگائے گئے۔(فاٹا کو کیوں نکالا)گو ایف سی آر گو۔ گو ایف سی آر کے نعرے لگائے گئے۔ ممبر پارلیمنٹ نے کازلسٹ کی کاپیاں پھاڑ دیں۔سخت احتجاج کیا۔جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ممبران پارلیمنٹ نے اسپیکرڈائس کے سامنے دھرنا دیا۔
اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔نو نو۔ شیم شیم کے نعرے لگائے۔عبدلقادر بلوچ نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے ملبہ وزیر پارلیمانی امور شیخ افتاب پر ڈال دیا۔انہوں نے کہا کہ بڑی سوچ بچار کے بعد اس وقت فاٹا کو ایجنڈے سے نکالا گیا ہے۔ تین روز بعد اس کو پھر شامل کر لیا جائے گا۔ڈپٹی اسپیکر نے اس کو نکالنے کی ٹکنیکی غلطی قراردیا۔وقفہ سوالات کے بعد اجلاس جب دوبارہ شروع ہوا تو فاٹا کے ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں اور سخت غصے کا اظہار کیا۔ فاٹا سے ممبر پارلیمنٹ ،شاہ جی گل آفریدی صاحب نے طیش میں آکر کہاہمیں باغی نہ بنائو۔ہمیں غدارنہ بنائو۔ پارلیمنٹ کو رسوا نہ کرو۔ہم پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ہائوس پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ یہ آخری موقعہ ہے۔ فاٹا سے پارلیمنٹ کے ممبرشہاب الدین صاحب نے کہا یہ ڈاکو کا ایجنڈا ہے۔ ڈاکو کہاں ہے۔جس نے فاٹا کو ایجنڈے سے خارج کر دیا ہے۔ ان کا اشارہ نا اہل وزیر اعظم کے طرف تھا۔اس دوران وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب صاحب اپنی سیٹ سے اُٹھ کر چوہدری نثار صاحب کے پاس گئے اور اس صورت حال پر مشورہ کیا۔ نواز لیگ کے دیگر ارکان خاموش بیٹھے رہے۔ پھرپارلیمنٹ کا اجلاس منگل تک ملتوی کر دیا گیا۔ اپوزیش کے ممبران پارلیمنٹ نے عبدلقادر بلوچ، فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی صاحبان کے خلاف نعرے لگائے۔اس کے بعد فاٹا کے ارکان دروزے پر کھڑے ہوگئے۔
جمعیت علمائے اسلام( ف) کے ارکان اور فاٹا ارکان پارلیمنٹ کے درمیان سخت تلخ کلامی ہوئی۔ فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ نے سخت احتجاج کیا۔ پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف اورووسری تمام پارٹیوں نے مل کر واک آوٹ کیا اور حکومت کو مجبوراًپارلیمنٹ کی کاروائی بند کرنے پڑی۔ صاحبو!فاٹا میں انگریز کے وقت سے ایف سی آر قانون رائج ہے۔دور غلامی کا یہ کالا قانون جو انگریزوں نے اپنے مطلب کے لیے بنایا تھا۔پاکستان بننے کے بعد اب تک رائج ہے۔ اب پاکستان کے عوام آزاد ملک میں رہ رہے ہیں۔ لہٰذا اس غلامی کے دور کے کے کالے قانون کو بھی ختم ہونا چاہیے۔ ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ایک ایک جیسے قانون کے تحت متحد رکھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کی ساری سیاسی پارٹیوں نے اس کالے قانون کو یک سر ختم کر کے فاٹا کو لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے تحت ان کو بھی آئین پاکستان کے تھے لانے کا ارادہ کیا ہے جس کو پاکستان کی جمہوری حکومت کی پارلیمنٹ کو فوراً قانون سازی کر کے فاٹا کے عوام کی خواہشات کے مطابق خیبر پختونخواہ صوبے میں ضم کر دیا جائے۔
فاٹا کے غیور قبائلیوں کے پاکستان کے عوام پر احسان ہے۔ انہوں نے ہی اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کر کے پاکستان کے موجودہ آزاد کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرایا تھا۔ فاٹا کے لوگوںکو آئین پاکستان کے تحت پاکستانی شہریوں جیسے حقوق حاصل نہیں۔ ان میں انگریز کے قوانین جو انہوں نے اپنے مقاصد کے لیے بنائے تھے اب تک رائج ہیں۔ فاٹا کے لوگوں کے ساتھ یہ ناانصافی پاکستان بننے کے وقت سے ہو رہی ہے۔اس لیے پاکستان کے نظریہ پر پختہ یقین رکھنی والی جماعت اسلامی نے فاٹا سے اسلام آباد تک فاٹا انضام لانگ مارچ کا انتظام کیا ۔موسم کی خرابی کے باوجود اپنے پاکستانی فاٹا کے بھائیوں کے حقوق کی لیے اپنے تن من دھن کے ساتھ فاٹا کے لیے حاضر ہے۔ نواز لیگ حکومت کو فاٹا کے لسٹ سے خارج کیے گئے ایجنڈے کو واپس پارلیمنٹ میں پیش کر کے قانون سازی کرنی چاہیے۔ اسی میں پاکستان کے عوام کی بھلائی ہے۔ اللہ پاکستان کا محافظ ہو آمین۔