جماعت اسلامی پاکستان کے دوسرے اداروں کی طرح مالیات کا نظام بھی منظم طریقے اور طے شدہ قواعد کے مطابق قائم ہے اورجماعت اسلامی کے دستور کے طے شدہ طریقے کے مطابق چلتا ہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت بغیر مالیات کے نہیں چل سکتی ۔ اسی لیے سیاسی جماعتوں نے مالیات کے طریقے وضع کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے آمدنی کے ذریعے بتانے پڑتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں جہانگیر دار ، سرمایا دار اور مخصوص نظریات رکھنے والے حضرات بناتے ہیں۔ ان ہی کے سرمایا سے سیاستی پارٹیاں چلتی ہیں۔جب کوئی پارٹی اقتدار میں آ جاتی ہے تو پھر اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ریاست کے خزانے میں کرپشن کر کے یہ پارٹیاں چلتی ہیں۔ پھریہ لوگ پارٹیوں کو مورثی بنا دیتے ہیں۔ باپ کے بعد بیٹے یابیٹیاں پارٹی کو چلاتے ہیں۔ جبکہ جماعت اسلامی ایک ایسے شخص نے بنائی جس کو مسلمان قوم کو کھویا ہوا مقام واپس دلانے اور اسے بام عروج پر پہنچانے کی لگن نے ایسا کرنے پر اُبھارا۔ اس کی بنائی ہوئی جماعت اسلامی مورثی نہیں۔ اس جماعت کا کوئی بھی کارکن اپنی محنت سے اس پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے۔
اس کے بانی نے ١٩٣٢ء سے اپنے ماہنامہ رسالے ترجمان القرآن کے ذریعے اس کام کے لیے برعظیم کے مسلمانوںکو دعوت دیتا رہا۔ دس سال کی محنت کے بعد١ ١٩٤ء میں پنجاب کے شہر لاہور میں ٧٥ افراد اور ٧٥ روپے ١٦ آنے کے قلیل رقم سے اس کی بنیاد رکھی گئی۔جماعت اسلامی کے بانی سید مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی سیکڑوں کتابوں کی ریالٹی جماعت اسلامی کی تنظیم چلانے کے لیے مختص کی۔جماعت اسلامی کی مالی مدد کے لیے اس کے ارکان، متفق اور ہمدرد ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپنے دستور کے مطابق اپنی تنظیم میں شفاف طریقے سے ہر مقامی جماعت کے لیے مقامی بیت المال،علاقہ میں علاقائی بیت المال،ضلع کے ضلعی بیت المال،حلقہ کے لیے حلقہ کا بیت المال،صوبے کے لیے صوبائی بیت المال،اور مرکز کے لیے مرکزی بیت المال قائم کیا ہوا ہے۔الا یہ کہ بالائی شوریٰ کسی نظام کے لیے الگ بیت لمال کے قیام کوغیر ضروری قرار دے یا کسی جگہ الگ الگ بیت المال کا انتظام مناسب سمجھے۔بیت المال کے متعلق نظم و نسق کے جملہ اختیارات امیر جماعت اسلامی کو حاصل ہیں۔
جماعت اسلامی کے بیت المالوں کی آمدنی جماعت کے ارکان اور اس کے کام سے دلچسپی رکھنے والوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔یہ اعانت،عشر و زکوٰة،عام صدقات،جماعت کی مطبوعات سے منافع،جماعت کے مکتبوں سے منافع ،لُقطہ جو جماعت کے دفاتر اور مقامات اجتماع میں ملے اور جو شرعی قواعد کی رُو سے داخل بیت المال ہو سکتا ہے۔ایسی جائیدادوں کی آمدنی جو جماعت کے لیے وقف کی گئی ہیں۔ ارکان جماعت اپنی زکوٰة، عشر اور صدقات واجبہ لازماً جماعت کے بیت المال میں داخل کریںگے۔ہر جماعت کا بیت ا لمال اس کے امیر کے تحت ہو گا۔ امیر کو اپنے بیت المال سے ہر جماعت کے کام پر خرچ کرنے کے اختیارات ہیں۔ لیکن ہر امیر اپنے امرائے بالا کے سامنے جوابدہ ہو گا۔امیرجماعت بیت المال کی آمدو صرف میں مرکزی مجلس شوری کے سامنے جواب دہ ہو گا۔مرکزی بیت المال کی پڑتال ہر سال کسی آڈیٹر سے کرائی جاتی ہے۔ جس کا تقرر مجلس شوریٰ کرتی ہے۔ آڈیٹر کی رپورٹ مجلس شوری کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر جماعت اسلامی کے مقامی بنیادی یونٹ جسے حلقہ کہتے ہیں،کے کارکن ہر ماہ باقاعدگی سے جماعت اسلامی کے بیت المال میں اعانت جمع کراتے ہیں۔ حلقہ میں ناظم مالیات کا تقرر کیا جاتا ہے۔ جو حلقہ کے مالیت کاحساب کتاب کا ذمہ دار ہوتا ہے۔یہ اعانت وصول کرنے کے لیے کارکنوں کو تعینات کرتا ہے۔اعانت لینے والا کارکن اعانت وصول کرتے وقت ہر کارکن کو بیت المال کی رسید جاری کرتا ہے۔ حلقہ کاناظم مالیات طے شدہ حصہ ، جماعت اسلامی کے مقامی کاموں میں خرچے کے بعدباقی رقم ہر ماہ جماعت اسلامی کے اپنے ضلع کے نظم کے پاس داخل کراتا ہے۔ ضلع جماعت اسلامی کے کاموں میں خرچے کے بعد اس اعانت کو صوبے میں جمع کراتا ہے۔ صوبہ اپنے اخراجات کے بعد باقی رقم مرکز میں اعانت جمع کراتے ہیں۔ مرکز پھر اس سے اپنے اخراجات چلاتا ہے۔ہر سال مرکزی ایڈیٹر مالیات ، پاکستان کے سارے ضلعوں کے مالیات کا باقاعدگی سے آڈٹ کرتے ہیں۔ ہر سال مرکزی مجلس شوریٰ میں جرنل سیکر ٹیری جماعت اسلامی کے دیگر کاموں کے ساتھ مالیات کی آڈٹ بھی رپورٹ پیش کرتا ہے۔ اگر کوئی غلطی ہو تو اس کی نشان دہی کی جاتی ہے۔اس طرح یہ سلسلہ جماعت اسلامی کے قیام سے اب تک جاری ہے۔ ان شاء اللہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔ پاکستان کے ہر شہری کا جماعت اسلامی کے مالیاتی نظام کو دیکھنے کی اجازت ہے۔
جب ملک میںالیکش کا زمانہ آتا ہے تو جماعت اسلامی کے ارکان سے خصوصی اعانت کے لیے کہاجاتا ہے۔ الحمد اللہ ا رکان اپنے بساط کے مطابق الیکشن فنڈمیں اپنا حصہ جمع کراتے ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے نظریات سے متفق اہل ثروت سے بھی الیکشن فنڈ میں حصہ لینے کے لیے جماعت اسلامی درخواست کرتی ہے۔اہل ثروت حضرات الیکشن فنڈ میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ بیرون ملک جماعت اسلامی کے نظریاتی کارکن فنڈ جمع کر کے الیکشن فنڈ میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ الیکشن میں کھڑے ہونے والے ممبران کو اس الیکشن فنڈ سے الیکشن فنڈ سے الیکشن لڑایا جاتا ہے۔ جب وہ کامیاب ہوتے ہیں تو پھر وہ اقتدار سے غلط فاہدہ اُٹھا کر کرپشن بھی نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک جماعت اسلامی کے کسی ممبر پر الحمد اللہ کرپشن کا الزام نہیں لگا۔
جماعت اسلا می نے اپنے قیام کے بعد غریب عوام کی خدمات کے لیے الخدمت ادارہ قائم کیا۔ اہل ثروت حضرات کے عطیوں اور ہر سال قربانی کی کھالوں کی مدد سے غریب عوام کی مدد کی جاتی رہی۔ پھرالخدمت فانڈیشن پاکستان رجسٹرڈ کرائی گئی۔ آج الخدمت فائونڈیشن پاکستان کی سب سے بڑی این جی اوئز بن چکی ہے۔ تعلیم ،صحت اور ملک میں قدرتی آفات، جیسے سیلاب ، زلز لے اور اب کررونا کی آفت کے موقعہ پر الخدمت فائونڈیشن نے دکھی انسانیت کے بے مثال خدمت کی ہے۔
صاحبو! جو جماعت اسلامی بغیر اقتدار کے پاکستان کے غریب عوام کی ایسی مثالی خدمت کر سکتی ہے تو اگرپاکستان کے عوام اسے الیکشن میں کامیاب کر کے اقتدار دیں تو پھر ان کے خزانے کی چوکیدار بنی گی۔ کسی کو کرپشن نہیں کرنے دے گی۔ کرپٹ لوگوں سے اسلامی نظامِ عدل کے تحت قاضی کورٹس قائم کر کے غریب عوام کا لوٹا ہوا پیسا واپس ان کے خزانے میں داخل کرے گی۔پھر نہ مہنگاہی ہو گی نہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں بڑیں گی۔ ہر پاکستانی کو روز گار ملے گا۔ ملک خوشحال ہو جائے گا۔حقدار کو اسلامی اصولوں کے مطابق حق ملے گا۔ زکوٰة کے کے نظام سے عوام میں خوشحالی آئے گی۔ سود ختم کر کے شراکت کی بنیاد پر کاروبار ہو گا۔ دولت امیروں کی طرف سے غریبوں کی طرف آئے گی۔ جو جماعت اسلامی اب اپنا مالیاتی نظام اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق کامیابی سے چلا رہی ہے ، وہ اقتدار میں آ کر ملک کا مالیاتی نظام بھی ایسے ہی اسلامی اصولوں کے مطابق چلائے گی۔ جس کا اس کو برسوں کا تجربہ ہے۔ سب سے بڑی بات کہ ہمارا رب ہم سے خوش ہو گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو آمین۔