جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی سیاست اوراحتجاج میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ کیوں کہ جماعت اسلامی اسے عوام کے حقوق کی اپوزیشن نہیں سمجھتی۔ بلکہ اسے کرپشن بچائو مہم سمجھتی ہے۔ جماعت اسلامی نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے پورے پاکستان میں مہنگائی کے طوفان،ٹیکسوں کی بھر مار اور ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کے سلسلے کی عوامی بیداری مہم کے تحت لاہور اور فیصل آباد کے بعد کراچی میں بھی ”کراچی عوامی مارچ” کا اعلا ن کیا۔جماعت اسلامی کراچی کے مطابق ،مہنگائی کے علاوہ روشنیوں کے شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں، جس کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ واٹر بورڈ کی نااہلی کی وجہ سے شدید گرمی میں پانی کی بوندھ بوندھ کو ترس رہے ہیں۔ شہر میں ٹینکر مافیا کا رائج ہے۔ شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں ۔عوام ویگنوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔کے الیکٹرک ے شہر بھر میں طویل لوڈ شیڈنگ شروع کر رکھی ہے۔ جب کے اس شہر کا میئر ایم کیو ایم پاکستان کا ہے۔ گورنر پی ٹی آئی کا ہے۔ وزیر اعلی سندھ پیپلز پارٹی کا ہے۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر اس شہر پر تیس سال حکومت کی۔ مگر یہ شہر کھنڈر جیسا لگتا ہے۔کیا یہ شہر ایسا ہی رہے گا ؟۔ نہیں! بلکہ چمکتا دمکتا مہکتا ماضی کا کراچی پھر سے آباد ہو سکتا ہے۔تعمیر و ترقی کاسفر پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔کراچی کے عوام آگے بڑھو،اپنا حق مانگو، متحد ہو کر ایک ہی مطالبہ بن جائو وہ کیاوہ کیا” کراچی کو عزت دو” یہ پیغام جماعت اسلامی کراچی کی لیڈر شپ نے کراچی عوامی مارچ میں کراچی کے عوام کو دیا۔ کراچی کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔اس شہر میں امن و امان تھا۔ اس شہر کی سیاست کو پورے پاکستان میں احترام سے دیکھتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ یہ شہر منی پاکستان کہلاتا تھا۔ اس شہر میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں،سندھ کے انصار اور پورے پاکستان کے لوگ روزی تلاش کرنے کے لیے آتے تھے۔اس شہر نے امت مسلمہ کی ساری قوموں کو اپنے دامن میں پناہ دی۔ یہ شہرایک اسلامی اور غریب پرور شہر تھا۔ جماعت اسلامی ہمیشہ اس شہر کی نمائندگی کیا کرتی تھی۔مرحوم پروفیسر غفور نے ذوالفقار بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں ،پاکستان کااسلامی آئین بنانے میں شرکت کی تھی۔ اس شہر نے دو ٹرم کراچی کی بلدیہ میں جماعت کے عبدالستار افغانی مرحوم کو انتخابات میں جتوایا۔ ایک دفعہ قومی اسمبلی کا ممبرچنا۔ نعمت اللہ خان صاحب کو شہر کے ناظم کی سیٹ پر منتخب کیا۔ اس دور میں کراچی میں اتنے ترقیاتی کام ہوئے، جتنے گذشتہ دور میں بھی نہیں ہوئے تھے۔
پھراس شہر کو پاکستان کے دشمن گریٹ گیم کے اہل کار بھارت ، امریکا اور اسرائیل نے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کیونکہ ان کو اسلامی پاکستان اور ایٹمی پاکستان ہر گز برداشت نہیں۔کراچی کو تباہ کرنے کے لیے ان کو غدار ِپاکستان الطاف مل گیا۔ الطاف نے امریکا ، اسرائیل کی آشیر اباد اوربھارت سے فنڈ لے کر دہشت گردی کی۔جسکی تصدیق بھارت کے حاضر سروس نیوی کمانڈرجاسوس گلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی بیان میں بھی کی۔جو شہر پاکستان کو ستر فی صد ریوینیو کما کر دیتا تھا اس کو تباہ کر دیا گیا۔ الطاف نے پاکستان کاجھنڈا جلایا۔ جی ایم سید کے ساتھ اتحاد کر پنجابی اور پٹھانوں کا قتل عام کرایا۔ پاکستان کے دو قومی اور اسلامی نظریہ کی مخالفت کرتے ہوئے بھارت میں کہا کہ ہندوستان کا بٹوارہ ایک تاریخی غلطی تھی۔ بھارتیوں کو کہا کہ ہم واپس آئین تو قبول کرو گے؟ الطاف نے پاکستان کو ایک ناسور کہا، بھارت، اسرائیل اور امریکا سے مدد مانگی۔ اپنے کارکنوں کو میڈیا پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔
کارکنوں نے جی بھائی جی بھائی کی پرانی گردان پڑھ کر میڈیا پر حملہ کر دیا۔ بلا آخرپاکستان کی فوج نے ایکشن لیا ۔ گرفتاری کے بعد ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے یو ٹرن لیا۔ ایک ہی دن میںایم کیو ایم کی مقامی لیڈر شپ نے دہشت گرد الطاف سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ایم کیو ایم ڈر ا ور خوف کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان بن گئی ہے۔ اب ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان، اور ایم کیو ایم پاکستان کے بھی دودھڑے بہادر آبادد اور پی آئی بی کالونی، مہاجر قومی موومنٹ، پاکستان سرزمین پارٹی میں بٹ چکی ہے۔ پاکستان سرزمین پارٹی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کے دماغ سے مہاجر کی خبط ابھی بھی نہیں نکلی۔ ہم اپنے متعدد کالموں میں مہاجر کی تشریع کر چکے ہیں۔ عجیب با ت ہے کہ کہیں سے بھی، کسی بھی وجہ سے، ہجرت کرکے آنے والے ہمیشہ مقامی قوموں میں ضم ہو جاتے رہے ہیں۔ مگر دہشت گرد الطاف کے چیلے اب بھی کبھی کبھی مہاجر صوبہ اور مہاجر حقوق کی رٹ لگاتے رہتے ہیں۔ قومیت ایک قسم کی زہر ہے ۔ جسے اسلامی معاشرے میں کبھی بھی برداشت نہیں کیا گیا۔قوم صرف پہچان کے لیے ہے۔ حقوق پاکستان کے آئین میں رہ کر ہی مانگے جا سکتے ہیں۔
اگر صرف جماعت اسلامی کے کارکنوں پر الطاف کے دہشت گردوں کے مظالم کی بات کی جائے تومجھے یاد ہے۔جب پہلی دفعہ ایم کیو ایم کو کراچی میں اقتدار ملا تو شہر میں جماعت اسلامی پر مظالم کی حد کر دی۔جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر منور حسن صاحب ،جو اُس وقت کراچی کے امیر تھے ۔ مظالم کے لیے الطاف سے ملنے گئے۔ الطاف سے کہا کہ بھائی آپ انتخابات جیت گئے ہو۔ ہم نے اپنی ہار تسلیم کر لی۔ پھریہ دہشت گردی کیوں؟۔ الطاف کا جواب تھا کہ ہم جیت گئے ہیں۔ اب آپ سیاسی سرگرمیاں بند کر کے گھر بیٹھو۔کراچی کے کالجوں میں اسلامی جمعیت کے کارکنوں کو زوکوب کیا۔ صرف کراچی ضلع جنوبی کے ایک پروگرام اسلامی جمعیت طلبہ کے تقریباً تیس زخمی کارکنوں کو پریس کے سامنے پیش کیا گیا۔ پولیس کی وردی میں جماعت اسلامی کے درجنوں کارکنوں کو چند دنوں میں شہید کیا۔
جب مرحوم قاضی حسین احمد سابق امیر جماعت اسلامی پشاور تا کوئٹہ، اپنا کاروان دعوت و محبت کا قافلہ لے کراچی ،لیاقت آباد سے گزرہے تو دہشت گردالطاف نے چھوٹے چھوٹے بچوں سے قافلہ پر پتھرائو کرایا تھا۔ اسی طرح کراچی کے کچھ حلقوں میں زمنی انتخابات کے موقعہ پر قاضی صاحب کے جلوس پر اورنگی میں بھی پتھرائوکرایا ۔ پویس کی ودریاں پہن کر الطاف کے غنڈوں نے جماعت کے درجنوں کارکنوں کو شہید کیا ۔قاضی صاحب نے صبح ایک کارکن کی دوپہر کو دوسرے اور رات گئے تیسرے کی نماز جنازہ الطاف کے گھر ٩٠ کے قریب عزیز آباد کے گرائونڈ میںپڑھائی۔ مجھے اچھی طرح سے یادکہ قاضی صاحب نے ہاتھ اُوپر کی طر ف اُٹھا ئے۔اللہ سے فریاد کی کہ اے اللہ آپ کسی کو بھی بد دعا سے منا فرماتے ہیں۔ الطاف کے غنڈوں نے میرے کارکنوں پر مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ اللہ تو ہی ان سے مظالم کا بدلہ لے۔ اس کے بعد ایم کیو ایم حقیقی بنی تھی۔ شہر میں بینر لگے، جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے۔
دونوں طرف سے خون ریزی شروع ہوئی۔ ایک دوسرے کے ہزاروں کارکنوں کو قتل کیا گیا ۔ اُس زمانے میںقاضی حسین احمد کراچی کے کارکنوں کا حوصلہ بلند کرنے کراچی تشریف لاتے توا لطاف کسی نہ کسی جماعت کے کارکن کو بے قصور شہید کرا دیتا۔ ایک دفعہ تنگ آکر قاضی حسین احمد نے ناظم آباد کے ایک جلسہ میں الطاف حسین کو للکار کر کہا تھا ۔ الطاف کان کھول کے سن لو۔کراچی کی ہی گلیوں کے میرے کارکن، اگر افغانستان میں روسیوں سے لڑ سکتے ہیں تو کراچی میں تمھارے ہزار، دو ہزار دہشت گردں کو بھی سیدھا کر سکتے ہیں۔ مگر ہم اپنے دستور کی مطابق سیاسی ا ختلافات پر کسی کی جان لینے کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مجھ جیسے ہزاروں جماعت اسلامی کے بوڑھے کارکنوں نے یہ یہ ظلم ستم اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ آج جب کراچی عوامی مارچ میں سہراب گوٹھ تا قائد اعظم کراچی کے عوام کا سمندر اُمنڈ آیا۔ مجھ جیسے ہزاروں بوڑھے جن کی آنکھوں کے آنسو اسلامی نظام زندگی کے لیے ترستے رہے اور اب خشک ہونے کو ہیں۔ کراچی کے عالیشان مارچ کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے کہ کراچی اپنے حقوق کے لیے تازہ دم ہے۔ جماعت اسلامی ہی پاکستان میں اسلامیِ نظامِ حکومت اور عوام، خاص کر کراچی کے عوام کو حقوق دلا سکتی ہے۔
کراچی کی تلخ تاریخ اور جماعت اسلامی پر دہشت گرد الطاف کے ظلم کی کچھ داستان بیان کرنے کے بعد اب جماعت اسلامی کے کراچی عوامی مارچ کی بات کرتے ہیں۔ ٹھیک چار بجے شہر کے ہرطرف سے قافلے مارچ میں شرکت کے لیے سہراب گوٹھ پہنچنے شروع ہو گئے۔ مارچ میںبچے، بوڑھے ،خواتین،نوجوان ،اور جے آئی یوتھ کے نوجوان موٹر سائیکلوں کی ریلیوں اور جماعت اسلامی کے سبز پرچموں کے ساتھ جماعت اسلامی کراچی کے دفتر نزد مزار قائد مغرب سے چند منٹ پہلے پہنچے ۔اور ہیڈ پلوں سے مارچ پر پھولوں کی بتیوں سے گل پاشی کی گئی۔ راستے میں جگہ جگہ مختلف مقامی لیڈروں نے خطاب کیا۔ جس میں سندھ اسمبلی کے لیاری سے منتخب سید عبدلرشید صاحب نے بھی خطاب شامل ہے۔ مزار قائد کے پا س سندھ کے امیر محمد حسین محنتی اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان اور نائب امیر کراچی اسامہ رضی صاحب نے خطاب کیا۔ کراچی کے حقوق کے لیے ایک مفصل قرارداد منظور کی گئی۔ کلیدی خطاب میں سینیٹر اور امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب نے فرمایا کہ آئی ایم ایف کی غلامی قبول نہیں۔ عمران خان نے قوم سے کہا تھا کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا ۔مگرعمران خان مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔
ہم پیپلزارٹی اور نون لیگ کی سیاست کا حصہ نہیں بنے گے۔ اپنے پلیٹ فارم سے تھرڈ اپوزیشن کے طور پرعوام کے درمیان موجود رہیں گے۔ اس حکومت سے اب عوام کو کوئی بھی توقعات نہیں۔ ہم ١٢ جولائی کو ملتان میں عوامی مارچ کریں گے۔عوام اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔یہ جدوجہد خون کے آخری قطرے تک جاری رہے گی۔انہوں نے کہا حکومت کا کوئی وژن نہیں۔مرغی کے انڈے اور بکری کے بچے فروخت کر کے ملک کی معیشت کوکیسے درست کر سکتے ہیں؟ حکومت سینمائوں کی تعداد بڑھا کر عوام کے کون سے مسائل حل کرے گی۔ حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔بھارت سے مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر بات نہیں ہو سکتی۔سودی معیشت میں ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ہمارا نیب اور حکومت سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں۔
ہم عوام کے مسائل حل کرانے گھروں سے نکلے ہیں۔ پچاس لاکھ گھر کہاں ہیں۔ جہاں تو پچاس لاکھ ٹینٹ بھی نہیں۔ ڈیزل اورپٹرول تو باہر سے آتا ہے مگر چینی چاول سمیت دیکر اشیا کو کیوں مہنگا کیاگیا، کیا شوگر مافیا کو فاہدہ پہنچانا تھا؟ عدالت عظمیٰ چینی کی قیمتوں پر اضافہ کا از خودنوٹس لے۔ حکومت عوام کو کوئی بھی ریلیف نہیں دی سکی ۔ ایم کیو ایم کو روزگار مل گیا دو وزیر تو پہلے ہی کابینہ میں ہیں ایک اور کا وعدہ مل گیا۔ ایم کیو ایم والے کراچی کے مسائل کی بات کہاں کرتے ہیں۔ پہلے تیس سالہ دور میں کراچی کے لیے کیا کیا۔جب بلدیاتی وقت پور ا ہونے کو ہے تو اب کراچی کو پانی دو کے بینر لگا رہے ہیں۔حکومت نے آئی ایم ایف کی مرضی کا بجٹ بنایا۔ جسے عوام نے رد کر دیا۔ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت کو ستر فی صد ریوینیو کما کے دینے والے کراچی کو عزت دی جائے۔ کے فور منصبوے کوشروع کیا جائے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم کر کے ٹینکر مافیا سے جان چھڑائی جائے۔کے الیکٹرک کے مافیا کو کنٹرول کیاجائے۔ کچرے کے ڈھیر ختم کیے جائیں۔ سڑکیں تعمیر کی جائیں۔کم از کم ایک ہزار بسوں کا فوری انتظام کیا جائے۔نوجوانوں کے ایک لاکھ نوکریاں مہیا کی جائیں۔ عوام اور تاجروں پر ظالمانہ ٹیکس واپس لیا جائے۔ ایف بی آر کے ظالمانہ ہتھگنڈوں سے عوام کو نجات دلائی جائے۔پاکستان اسٹیل کے ریٹائرڈ ملازمین کے تمام واجبات ادا کیے جائیں۔معراج الہدی صدیقی صاحب کی دعاسے” کراچی عوامی مارچ” اختتام پزیر ہوا۔