مولانا موددی اپنی خود نوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں”خاندان موددیہ کی جس شاخ سے میرا تعلق وہ نو یں صدی ہجری کے اواخر میں ہندوستان آیا تھا۔اس شاخ کے پہلے بزرگ جنہوں نے ہندوستان میں مستقل سکونت اختیار کی وہ ابو ا لاعلیٰ موددی تھے”مولانا موددی کے اسلاف افغانستان کے علاقہ ہرات کے مقام چشت سے پہلے بلوچستان منتقل ہوئے۔ جہاں کئی پشتوں تک مقیم رہے۔ پھر مولانا موددی کے خاندان کے پہلے بزرگ شاہ ابو ا لاعلی جعفر ہندوستان تشریف لائے۔ ان کے نام پر مولانا موددی کا نام ابوا لاعلیٰ رکھا گیا۔تاریخی طور پر ہجرت اور جہاد اس خاندان کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔ سکندر لودھی نے ٢ رمضان ٩١٢ ھ جس فوج کے ساتھ راجپوتوں کے مضبوط قلعہ تھنکر پر چڑھائی کی تھی اس فوج کے لشکر کے ہمراہ شاہ ابو الاعلیٰ جعفر اپنے مریدان با صفا کے ساتھ شریک تھے ۔ اس لشکر نے راجپوتوں کے مضبوط قلعہ تھنکر کو فتح کیا تھا۔ مولانا موددی نے بھی اپنے خاندان کی روایت قائم رکھتے ہوئے علامہ اقبال کے کہنے پر حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے پنجاب کے علاقہ پٹھان کوٹ میں اسلام کی خدمت کے لیے منتقل ہوئے تھے۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد مولانا موددی کو قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قائم کرنے کے طریقے بتائیں۔مولانا موددی نے ریڈیا پاکستان سے کئی دن تقریر نشر کر کے اسلامی نظام حکومت کے قیام کی تشریع تھی ۔یہ تقاریر اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ جو لوگ مولانا کو موددی پر ناجائز بہتان لگا کر ان کو قائد اعظم کا مخالف کہتے ہیں وہ اس بات کو بھی نوٹ کر لیں۔ مولانا موددی جماعت اسلامی کی تشکیل سے پہلے مسلمانان برصغیر کے سامنے ایک عرصہ تک اس کی افادیت اپنے رسالے ترجمان القرآن میں بیان کرتے رہے۔ ان کے نزدیک جماعت اسلامی اسلام کے کسی جزوی کام کے لیے نہیں بلکہ پورے کے پورے اسلام کے نفاذ کے لیے بنائی گئی۔ دنیا میں رائج اللہ سے باغی نظام کو تبدیل کر کے حکومت الہیا، اسلامی نظامی، نظام مصطفےٰ، نام کوئی بھی ہو، اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے قائم کی گئی۔ اسی پالیسی پر جماعت اسلامی اب تک قائم ہے اور انشاء اللہ جب تک اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم نہیں ہوتا اس کی جدو جہد جاری رہے گی۔
جب کچھ لوگ اس کام کے لیے تیار ہو گئے تھے تو ١٩٤١ء لاہور میں ٧٥ افراد اور ٧٥ روپے کچھ آنے کی رقم کے ساتھ جماعت اسلامی قائم ہوئی۔جماعت اسلامی نے عصری تقاضے کے مطابق پر امن جمہوری جدو جہد کر کے اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو قائم کرنے کی جو پالیسی شروع میں میں منتخب کی تھی اس پر ہی کام کر کے تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ چاہے اس کے لیے کتنی ہی مدت درکار ہو۔اس عصری طریقہ یعنی بالغ رائے دہی کے ذریعے انتخابات میں شریک اور کامیاب ہو کر جمہوری طریقہ سے اسلامی نظام قائم کر نے کی جماعت اسلامی کے مؤقف سے اختلاف کر کے کچھ بنیادی ارکان جماعت اسلامی سے علیحدہ ہو گئے۔ مگر مولانا موددی نے تحریک اسلامی کے آیندہ لائحہ عمل کتاب میںجماعت اسلامی کی پالیسی واضع کر دی۔ جو اب بھی کتاب کی شکل میں موجود ہے۔اس میں مولاناموددی نے واضع کیا کہ جماعت اسلامی انڈرگرونڈرہ کر کوئی کام نہیں کرے گی۔
مروجہ جمہوری انتخابات کے لے ذریعے نظام حکومت کو تبدیل کرے گی۔اس کے لیے جماعت اسلامی نے شروع دن سے چار نکاتی پروگرام طے گیا۔جس کے تحت تطہیر افکار، تعمیر افکار، صالح افراد کی تلاش اور ان کی تربیت، اصلاح معاشرہ کی کوشش، آخر میں نظام حکومت کی تبدیلی۔ اس پروگرام کے تحت جماعت اسلامی ترقی کے منازل طے کر رہی ہے۔ جو تجزیہ کار جماعت اسلامی کے کام کو اس کے واضع کردہ پروگرام کے صرف انتخابی جز کو سامنے رکھ کر اس کو انتخاب میں کامیابی یا ناکامی پر پر کھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید وہ ادھورا تجزیہ کرتے ہیں۔جماعت اسلامی صرف مروجہ انتخابی جماعت نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی جماعت ہے جوبتدریج اپنی منز ل کی طرف گامزن ہے۔
مولانا موددی عالم دین سے بڑھ کر وقت کے مجدّد تھے۔ہمارے دشمنوں نے مسلم دنیا میں یہ نظریہ عام کر دیا کہ اس دور میں اسلامی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ حکومتیں لادینی سیکولر ہونی چاہییں۔مولانا موددی نے اس دور میں بھی مکمل اسلامی نظام نظام کے رائج ہونے کا نظریہ عام کیا۔ مولانا موددی کے نظریات نے پوری دنیا مسلم دنیا میں ہلچل مچا دی۔ صاحبو!١٩٢٤ء میں جب مسلمانوں کی خلافت ختم کر کے صلیبیوں نے مسلم دنیاکو درجنوں راجوڑوں میں تقسیم کر کے اپنے پٹھو حکمران مسلم امت پر ٹھونس دیے ۔ یہ پٹھوحکمران اب تک صلیبیوں کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ اُس وقت امریکا کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی خلافت یعنی سیاسی حکومت قائم نہیں ہونے دی جائے گی۔جب الجزائر اور مصرمیں جمہوری طریقے سے جیت کر اسلامی سیاسی حکومتیں قائم کرنے کے کوشش کی گئی تو وہاں مسلم دنیا کی فوجوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرکے جمہوری حکومتوں کوختم کرادیا گیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے ہی لوگوں کے ہاتھوں ایسا کیا گیا۔ مولانا موددی کے افکار پوری مسلم دنیا میں تسلیم کر لیے گئے ہیں۔پوری مسلم دنیا کے عوام امریکی پٹھو حکمرانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی نظام قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
پاکستان بھی اسلام کے نام سے حضرت قائد اعظم کی لیڈر شپ کے اندر جمہوری جدو جہد کے ذریعے قائم ہوا تھا۔ انشاء اللہ جمہوری طریقے سے ہی پاکستان میں اسلامی نظام حکومت بھی قائم ہو گا۔ اللہ نے قائد اعظم کو جلد بلا لیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد مولانا موددی نے دوسرے اسلام پسند لوگوں کے ساتھ مل کر اسلامی نظام رائج کرنے سے پہلے دستور کو اسلامی بنانے کے لیے دستوری مہم چلائی تھی۔اسی مہم کے نتیجہ میں ہی ١٩٧٣ء میں پاکستان کا اسلامی آئین بنا۔ گو کہ آج تک اس آئین کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ اگر قائد اعظم کے وژن اور مولانا موددی کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کر کے پاکستان میں اسلامی نظام قائم کر دیا جائے تو اللہ کے حکم کے مطابق آسمان سے رزق نازل ہو گا۔ زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔ ملک میں امن آمان ہو گا۔
دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔پڑوسی ملک پاکستان میں ناجائز مداخلت ختم کر دیں گے۔ نہ بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو گی۔ نہ مہنگائی ہو گی اور نہ ہی بے روز گاری ہو گی۔رسولۖ اللہ کی ایک حدیث کے مطابق جب تم میری لائی ہوئی شریعت نافذ کر دو گے تو کوئی زکوٰة لینے والا تمھیں نہیں ملے گا۔ یعنی سب خوش حال ہو جائیں گے۔٢٢ستمبر١٩٧٩ء کو مولانا موددی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اللہ ان کی سعی کو قبول فرمائے ان کو کروٹ کروٹ سکھی رکھے آمین۔ جہاں تک مولانا مودددی کی اسلام کی خدمات کا تعلق ہے تو لاکھوں لوگ ان کے یاد کرائے گئے سبق سے مستفیض ہو کر اللہ کے کے دین کو قائم کرنے کی جدو جہد میں شریک ہوگئے۔ لوگ تو اپنی حد تک کوششیں کر رہے ہیں۔ جب اللہ کو منظور ہو گا اس مثل مدینہ ریاست، مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو جائے گا .انشاء اللہ۔