ہم نے اپنی سیاسی زندگی کے سفر کی ابتداء پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلباء کے پلیٹ فارم سے کی۔ اِس سے پہلے کہ ہم اپنے اِس دردناک ”سیاسی سفر” کی روداد بیان کریں، ہمیں ”اعتراف خاں” کی طرح یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ کاروبارِ سیاست سے ہمارا تب کوئی تعلق تھا، نہ اب ہے۔ ہم ٹھہرے ”سٹارپلس” کے ڈراموں کے شوقین، ہمارا بھلا ”سڑی بُسی” سیاست سے کیا تعلق لیکن جس طرح کچھ لوگ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں، مُنہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولتے ہیں، اُسی طرح ہم بھی سمجھتے تھے کہ سیاستدان کہلانا بڑے فخر کی بات ہے۔ اِسی لیے یونیورسٹی کے دَور میں ہم گلا پھاڑ پھاڑ کر ایشیا کو سبز کرنے کی کوشش کرتے رہے جبکہ ہمارے مقابلے میں ذوالفقارعلی بھٹو کے جیالے ایشیا کو سُرخ کرنے کی تگ ودَو میں نظر آئے۔ کچھ غیرجانبدار منچلوں کا یہ نعرہ ”سُرخ ہے نہ سبز ہے، ایشیا کو قبض ہے” بھی بہت مقبول ہوا۔ یونیورسٹی کی حد تک تو ہم نے ”سُرخوں” کو ہمیشہ بُری شکست سے دوچار کیا لیکن عام انتخابات میں جماعتِ اسلامی کی کارکردگی پتہ نہیں کیوں کبھی قابلِ تحسین نہ رہی۔
یونیورسٹی کا دَور گزرا تو ہماری عملی زندگی شروع ہوئی۔ جب ہم لیکچرار بنے تو اسلامی جمیعت طلباء کی جگہ جماعتِ اسلامی نے لے لی۔ یہ وہ دَور تھا جب ”ٹھنڈے ٹھار” میاں طفیل محمد جماعت اسلامی کے امیر ہوا کرتے تھے اور ملک ضیاء الحق کے مارشل لاء کی گھنگھور گھٹاؤں کی زَد میں۔ میاں طفیل محمد مرحوم کے دِل میں ابتداء میں تو ضیاء الحق کے لیے نرم گوشہ تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ضیاء الحق اسلامی نظام کے داعی تھے اِس لیے اُن کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہییںلیکن جب اُنہیں احساس ہواکہ ضیاء الحق اسلامی نظام کی آڑ میںاپنی حکومت مضبوط کر رہے ہیںتو وہ بَددل ہوئے اور کہہ دیا کہ اپنی تمام تر نمازوں کے باوجود یہ حکومت جہنمی ہے۔ پھر دبنگ قاضی حسین احمد کا دَورِ امارت آیاتو ہماری اُمیدوں کا چمن ایک دفعہ پھر ہرابھرا ہوگیا۔ ہم سمجھے کہ قاضی صاحب کی انقلاب آفریں شخصیت کچھ نہ کچھ رنگ ضرور دکھائے گی اِسی لیے ہم بھی ”ظالموں! قاضی آرہا ہے” جیسے خوفناک نعرے لگا کر لوگوں کو ڈراتے رہے لیکن جب عام انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی کی ”صندوکڑیاں” بھاں بھاں کرتی رہیں۔ شاید ”ظالم” کچھ زیادہ ہی ڈر گئے ہوںگے اِس لیے وہ جماعت اسلامی کو ووٹ دینے سے بِدکتے رہے۔ انتخابی نتائج سے ہمیں مایوسی تو بہت ہوئی مگر ”پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ” کے مصداق ہمارا جماعت اسلامی سے تعلق مضبوط تر ہوگیا۔ تب ہم اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے اکیلے میں اکثر گنگناتے رہتے تھے کہ ”گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں ”۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم محترم قاضی حسین احمد کی انقلابی جدوجہد کے ہمیشہ قائل ہی رہے ۔
2002ء کے عام انتخابات سے پہلے ایم ایم اے قائم ہوئی جس نے انتخابات میں محیرالعقول کامیابی حاصل کی۔ خیبرپختونخوا میں تو ایم ایم اے کی بِلاشرکتِ غیرے حکومت تشکیل پائی اور مرکز میں مولانا فضل الرحمٰن وزارتِ عظمیٰ کے حصول سے بال بال بچے مگر وہ حزبِ اختلاف کی قیادت لے اُڑے۔ موجودہ امیرِ جماعت اسلامی محترم سراج الحق خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت کے وزیرِ خزانہ بنے۔ ایم ایم اے سے لوگوں نے بہت سی توقعات وابستہ کیںجو پوری نہ ہوئیں البتہ مولانا فضل الرحمٰن نے کے پی کے کی حکومت اور مرکز میں حزبِ اختلاف کی قیادت خوب انجوائے کی۔ جماعت اسلامی کے حصّے میں اگر کچھ آیا تو صرف یہ بدنامی کہ ایم ایم اے نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف کو دسمبر 2004ء تک دو عہدے یعنی ملکی صدارت اور سرکاری ملازمت اپنے پاس رکھنے کا اختیار دے دیا۔ جب پرویزمشرف نے اپنے وعدے سے مکر کر وردی اتارنے سے انکار کر دیا توتمام تر بدنامی جماعت اسلامی کے حصے میں آئی حالانکہ حکومت کے مزے مولانا فضل الرحمٰن اور اُن کی جماعت جمیعت علمائے اسلام لوٹ رہی تھی۔
ایم ایم اے کے تلخ تجربے کے بعد جماعت اسلامی نے 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیااور 2013ء کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف حکومت کی اتحادی بنی۔ محترم سراج الحق اُس حکومت میں بھی وزیر رہے۔ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہونے کے بعد محترم سراج الحق نے ہماری اُمیدوں کے چراغ ایک دفعہ پھر روشن کر دیئے کیونکہ اُنہیں صوبائی حکومت کا ہی سہی، کچھ نہ کچھ تجربہ ضرور تھا۔ اُنہی کے دَورِ امارت میں ایک دفعہ پھر ایم ایم اے کا احیاء ہوا لیکن 2018ء کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کو قابلِ ذکر کامیابی نہ ملی۔ صرف ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمٰن ہی نہیں تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات میں کھلم کھُلا دھاندلی کا الزام لگایا۔ مولانا فضل الرحمٰن تو پارلیمنٹ میں جانے اور حلف اُٹھانے کے حق میں بھی نہیں تھے لیکن نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے سمجھانے پر وہ راضی ہوئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میں ہی عمران خاں صاحب کو ”سلیکٹڈ” کہہ دیاجس پر خاںصاحب نے تالیاں بھی بجائیں لیکن جب اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کے ساتھ ”ہَتھ” ہو گیاہے تو وہ بہت چیں بچیں ہوئے۔ اب تو سلیکٹڈ اُن کی چھیڑ بن چکی ہے
۔ حیرت ہے کہ خاںصاحب جب سے سیاست میں آئے ہیں، اُنہیں مختلف ناموں سے پکارا جا رہاہے۔ 2013ء کے بعد جب وہ حکومت میں بھی نہیں آئے تھے، اُنہیں ”طالبان خاں” کہا جاتا تھا۔ اب سلیکشن کے بعد اُنہیں ”تابعدار خاں” کہا جا رہاہے۔ جب چند روز پہلے اُنہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ایک سال تک تو اُنہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کیا ہو رہاہے اور اقرار کیا کہ تیاری اور تجربے کے بغیر کسی کو حکومت میں نہیں آنا چاہیے تو لوگوں کو ایک نیا موضوع مل گیا ہے اور ہم نے بھی موقع غنیمت جان کر اُنہیں ”اعتراف خاں” کہنا شروع کردیا ۔ اپوزیشن تو یہ کہتی ہے کہ جب تجربہ ہی نہیں تھا تو کیا ملک وقوم کا بیڑا غرق کرنا ضروری تھا۔ کچھ تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ خاںصاحب کے پاس شیخ رشید، شاہ محمودقریشی اور فوادچودھری جیسے گھاگ سیاستدان اب بھی موجود ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اُنہیں جہانگیرترین جیسے سیاسی بساط کے ماہر کی حمایت بھی حاصل تھی۔
موجودہ وزیرِخزانہ حفیظ شیخ بھی پیپلزپارٹی کے دَور میں وزیرِ خزانہ رہ چکے، اُن میں بھی تجربے کی کوئی کمی نہیں۔ اِس لیے خاںصاحب کا تجربے کی کمی کا رونا ناقابلِ قبول۔ خاںصاحب کو سوچنا ہوگا کہ کہیں اُن کے اپنے اندر تو کوئی ٹیڑھ نہیں؟۔ اگر یہ ٹیڑھ ہے تو یقیناََ اُن کی ضد اور انانیت کی وجہ سے ہے۔ وہ اگر اپنی ضد اور انانیت کو چھوڑ دیں تو شاید ملک وقوم کا کچھ بھلا ہوسکے۔ بات چلی تھی جماعت اسلامی سے لیکن ہم رَو میں ایسے بہے کہ کہیں کے کہیں جا نکلے۔ عرض ہے کہ ہماری جماعت نے اب بھی ساری اپوزیشن سے اپنی راہیں الگ کر رکھی ہیں۔ جب ساری اپوزیشن پی ڈی ایم کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر ہے اور جماعت اسلامی کا بھی موجودہ حکومت سے وہی گلہ ہے جو پی ڈی ایم کا تو پھر ساتھ چلنے میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر جمات اسلامی پی ڈی ایم کے ساتھ چلے تو یقیناََ اُس کی انفرادیت برقرار رہے گی اور اگر اُس نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد ہی بنانی ہے تو پھر ہم جیسوں کو یہی بتا دے کہ ہم ۔۔۔۔۔ جائیں تو جائیں کہاں۔