پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے دھرنوں کے باعث خیبر پختونخواہ کے راستے نیٹو سپلائی رک گئی ہے البتہ یہ سلسلہ بلوچستان کے راستے جاری ہے۔ پاکستان سے نیٹو سپلائی کی مکمل بندش کے تحریک انصاف اپنی حامی جماعتوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے باہر بھی ڈیرہ ڈال چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بندش ہر پاکستانی کی خواہش ہے۔ لیکن جب انہی ڈرون حملوں میں ان عناصر کے خاتمہ بالخیر کی خبریں آتی ہیں جنہوں نے پاکستان کے گلی کوچوں کو مقتل گاہ بنا یا تو عوام کچھ تقسیم ہو جاتے ہیں۔ نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنوں کی کال تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے دی گئی ہے اور دھرنا دینے والوں کے خلاف قانونی کاروائی بھی خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی سرپرستی میں ہوئی۔ تحریک انصاف کی جانب سے طالبان کے دفتر کے قیام، مذاکرات، نیٹو سپلائی لائن کی بندش اور ڈرون حملوں کی بندش کے مطالبات شدت کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔
ہنگو میں ڈرون حملے کے بعد عمران خان اپنے فطری اتحادی جماعت اسلامی کے ساتھ ایک احتجاج کے پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔ اب عمران خان کو ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے بے گناہ معصوم پاکستانی شہریوں، بچوں اور خواتین سے ہمدردی ہے یا القاعدہ اور طالبان کمانڈرز جو ان حملوں میں ہلاک ہورہے ہیں ان کا شدید صدمہ ہے۔ اس فرق کو ظاہر کرنے کے لیے خیبر پختونخواہ حکومت کے اقدامات اور مطالبات کا معمولی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون حملوں میں جہاں اسلام، پاکستان دشمن عالمی دہشت گرد نشانہ بن رہے ہیں وہاں بے گناہ معصوم پاکستانی شہری بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ جس وقت امریکی ڈرون بے گناہ پاکستانیوں کو نشانہ بنا رہے تھے اس وقت خان صاحب کا مطالبہ پاکستان میں تحریک طالبان کے دفتر کھولنے کا تھا۔ مقام حیرت ہے کہ دفتر کے قیام کا مطالبہ بھی طالبان کی جانب سے نہیں کیا گیا اور نیٹو سپلائی کی بندش کا مطالبہ بھی طالبان کی جانب سے نہیں کیا گیا۔
لیکن یہ دونوں مطالبے انتہائی شدت سے خان صاحب نے کئے اور تاحال ان پر ثابت قدم بھی ہیں۔ ہنگو میں مدرسے پر ہونیوالے ڈرون حملے کے بعد تحریک انصاف نے نیٹو سپلائی روکنے کے لیے باقاعدہ دھرنے شروع کردیئے ہیں۔ لیکن خان صاحب سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس ڈرون حملے میں مدرسے کے کتنے طالب علم شہید ہوئے؟ تو اس کا جواب ندارد جبکہ اسی ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈرز نشانہ بنے۔ دوسری طرف خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے ڈرون ذدہ علاقوں میں ڈاکٹروں، رضاکاروں کی کتنی ٹیمیں بھیجیں گئیں؟ خان صاحب نے خیبر پختونخواہ میں کتنے رجسٹریشن سنٹر، یا ایسے مراکز قائم کئے جہاں ڈرون سے متاثرہ خاندانوں کو کچھ ریلیف دیا جاسکے۔ انسانی، قومی اور ملی ہمدردی کے جو کام صوبائی حکومت کر سکتی ہے وہ انجام دینے کے بجائے نیٹو سپلائی کی سردردی لے کے بیٹھ گئی ہے۔ کیا اسی تبدیلی کا نعرہ خان صاحب نے بلند کیا تھا۔دھرنوں سے قبل یہ ضروری ہے کہ خان صاحب صوبے میں کچھ ترقیاتی کاموں پر توجہ دیں ۔عوام کو ریلیف دینے کی حالت زار یہ ہے کہ ملکی سروے کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان کو پاکستان کا مہنگا ترین شہر قرار دیا گیا۔ اگر خان صاحب گڈگورنس کی جانب توجہ دیں تو شائد انہیں یہ بھی معلوم ہو کہ یہ شہر بھی صوبہ خیبر پختونخواہ میں شامل ہے۔ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد کتنے سکول، کالجز، یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا؟ کتنے صارفین کو گیس کے نئے کنکشن فراہم کئے گئے ؟ کتنے ڈسپنسریوں اور ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے۔ رشوت، اقربا پروری کا کتنا خاتمہ ہوا۔
سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کے کتنے کیسز حل ہوئے؟ انصاف، صحت، تعلیم کو کس حد تک غریب آدمی کی دسترس میں لایا گیا؟ جیلوں سے فرار دہشت گردوں و قیدیوں کی گرفتاریوں کے لیے کتنی کو شش کی گئی؟ مہنگا ئی، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟ اگر ان خالصتا عوامی مسائل کی مد میں اس صوبائی حکومت کا جائزہ لیں تو ناکامی کا ایک سلوگن حکومت کی پیشانی پر جگمگا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو یاد دہانی کے لیے اپنی انتخابی مہم میں کی جانیوالی تقاریر اور عوام سے کئے گئے وعدوں کے ویڈیو کلپس دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ وہ عوامی خواہشات کے مطابق کوئی حکمت عملی ترتیب دے سکیں ۔ترقی پسند قوم کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو خان صاحب نے اپنی انتخابی مہم میں استعمال کیاوہ نوجوان ملک سے معاشی اور معاشرتی انصاف کی فراہمی کی تحریک سے اتنے مخلص تھے کہ انھوں نے اپنے والدین اور خاندانوں کو مدتوں پرانی تنظیمی وابستگیوں کو نظر انداز کرنے پر مجبور کیا۔
Drone
نوجوانوں کا یہ طبقہ نہایت تخلیقی ذہنیت کا مالک ہے ۔ ان کی آرزوئیں و امنگیں نیٹو سپلائی، طالبان کے دفاتر یا ملک کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنانے کے لیے ہرگز نہیں تھیں یہ ترقی کے طالب ہیں تعلیم، صحت، روزگار، معاشی و معاشرتی انصاف کے طالب ہیں۔ ان کی نظروں نے خان صاحب کو ایک انقلابی لیڈر کی صورت میں دیکھا نہ کہ انھوں نے ایک کلین شیو مولوی کوان دہشت گردوں کی ترجمانی کرنے کے لیے ووٹوں سے نوازا جو ملک کے نظام، شہریوں اور اداروں خصوصا پاک فوج پر کفر کے فتوے جاری کرکے گولہ بارود داغے جارہے ہیں۔ ڈرون حملوں سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف دینے سے لاپرواہی لیکن ڈرون حملوں کو سیاسی ایشو بنا کر حکومت و اداروں کے خلاف واویلا دوہرے معیار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ نیٹو سپلائی روکنے کے لیے دھرنوں کے بجائے صوبائی حکومت ایک نوٹیفکیشن جاری کیوں نہیں کرتی کہ صوبے کی سڑکیں اتنی بھاری مشنری کا بوجھ نہیں سہہ سکتی لہذا فوری اطلاق کے ذریعے نیٹو کنٹینرز کی نقل و حرکت بند کردی جائے یا امریکہ اب تک کے ہونے والے صوبے کے نقصانات کا ازالہ کرے ۔ تحریک انصاف سلامتی کونسل میں ڈرون حملوں کے خلاف براہ راست درخواست گزار کیوں نہیں بنتی کہ اس میں بے گناہ معصوم شہری نشانہ بن رہے ہیں لہذا بند کی جائے۔ شائد عمران خان صاحب جانتے ہیں کہ اگر عالمی برادری نے ڈرون حملوں میں نشانہ بننے والے چند معصوموں کے نام ان کے سامنے رکھ دیئے کہ یہ لوگ آپ کے ہاں کیا کررہے تھے ۔ تو اس کا کیا جواب ہو گا تاحال معلوم نہیں ۔ ان میں سے چند نام پیش خدمت ہیں۔
بیت اللہ محسود (طالبان رہنما)، حکیم اللہ محسود(سربراہ طالبان)، مولوی نذیر(طالبان لیڈر)، ولی الرحمان (نائب سربراہ طالبان)، محمد احمد منصور(القاعدہ لیڈر)، الیاس کاشمیری(القاعدہ اہم رہنما)،ملا ناضر(طالبان کمانڈر) عصمت اللہ معاویہ (طالبان کمانڈر)، محمد الدین حقانی (طالبان کمانڈر )، خواز ولی محسود(طالبان کمانڈر)،ابو خباب المصری (القاعدہ رہنما)، ہاتم الیمنی ( القاعدہ کمانڈر) ، ابو حمزہ ربعیہ(القاعدہ کمانڈر) ، ابو لطیف الیبی(القاعدہ)،ابو سلمان الجزائری(القاعدہ)، مادت مرسی(القاعدہ)، خالد خبیب (اہم کمانڈر القاعدہ)، محمد حسن خلیل الحکیم (القاعدہ آپریشنل انچارج ) عبداللہ آدم السعودی(القاعدہ سینئر کمانڈر)، اسامہ الکنی (القاعدہ سینئر کمانڈر)، شیخ احمد سلیم سیودان(القاعدہ سینئر رہنما)، زاہد فقیر محمد(القاعدہ)، صالح الصومالی(القاعدہ پلاننگ انچارج)،جمال سعید عبدالرحیم (القاعدہ لیڈر)، عبد الحق ترکستانی(القاعدہ)،ذوہیب الزہبی(کمانڈر لشکر الذل)، حاجی عمر خان (رہنما طالبان)، جمال سعید عبد الرحیم (القاعدہ لیڈر)، عبدالحق ترکستانی(ترکستانی اسلامک پارٹی بہادر منصور (سربراہ گروپ)،رانا افضل (ایف آئی اے ہیڈکوارٹر ۔لاہورپر حملے کا ماسٹر مائنڈ) ، محمد قاری ظفر(سربراہ لشکر جھنگوی)،صدام الحسین الیمانی (القاعدہ کمانڈر)،سعید المرثی(القاعدہ)، قریشی(طالبان لیڈر)، سیف اللہ حقانی (طالبان کمانڈر)، شیخ فتح المرثی (القاعدہ)،ابن امین (شدت پسند کمانڈر) و دیگر۔ نیٹو سپلائی لائن کا جائزہ لیں تو اس کی بھی عجب کہانی ہے۔
امریکہ جب افغانستان میں آرہا تھا اس وقت بھی تحریک انصاف کی حلیف جماعت جماعت اسلامی صوبے میں حکمران تھی ۔جس جماعت کے منسٹرز کو عمران خان کرپشن پروف قرار دے رہے ہیں سب سے زیادہ نیٹو کینٹینرز کی گمشدگی کے واقعات انہی کے دور اقتدار میں پیش آئے۔ ظاہر کچھ بھی ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ امریکہ کو آنے سے نہ روکنے والے امریکہ کوواپس جانے سے روکنا چاہتے ہیں۔ اب اس سے زیادہ امریکہ پسندی کی مثال ڈھونڈے نہیں ملتی۔ ایک طرف یہ مطالبہ تھا کہ امریکہ خطے سے انخلا کرے دوسری طرف یہ بھی ضد ہے کہ کچھ دے کر واپس جائے ۔اب اس کچھ دینے میں امارت اسلامی وزیرستان کی سربراہی ہے یا کچھ اور؟ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ امریکہ جب آیا اس وقت بھی بدقسمت صوبے میں طالبان کے حمایتی برسر اقتدار اور واپسی کے وقت بھی طالبان کے حامی برسر اقتدار ، دوسری طرف انہی جماعتوں کا یہ بھی دعوی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی امریکی آشیر باد کے بغیر کوئی عوامی حکومت برسرا قتدار نہیں آسکتی۔
اس تناظر میں تو محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی نقل و حرکت انہی طالبان حمایتی گروپوں کی حکومت میں زیادہ محفوظ تصور کر تا ہے۔ ایک طرف امریکہ سے دشمنی دوسری جانب امریکہ سے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد سے استفادہ بھی ہورہا ہے۔ معلوم نہیں قول و کردار کے یہ دوہرے معیار کب تک صوبے کی عوام بھگتیں گے۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ باقی ایشوز کے ساتھ ساتھ صوبے میں عوامی ضروریات کے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دے کر لوگوں کا معیار زندگی بدلنے کی کوشش کرے۔ صحت تعلیم روزگارکی فراہمی اور کرپشن کے خاتمے کے انتخابی نعروں کوحقیقت کا روپ دے ۔پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے بھی دے لیکن ان دھرنوں میں بجلی، گیس کی پیداور، مہنگائی کے خاتمے اور صحت تعلیم روزگار اور انصاف کی فراہمی کے لیے بھی آواز اٹھائے اور اپنے صوبے میں پنجاب کی طرح میٹر و بس نہ سہی بسوں میں کرایہ نامے ہی آویزاں کرادے۔ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے بھی ہر اقدام اٹھائے قوم ان کے ساتھ ہے لیکن صوبے سے دہشت گردوں کی آما جگائیں ختم کرنے کے لیے بھی کوئی پالیسی مرتب کرے۔