جماعت اسلامی ٢٦ اگست ١٩٤١ء کو قائم ہوئی

Jamaat-e-Islami

Jamaat-e-Islami

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ

جیسے دوسری جماعتیں، لوگ قائم کرتے ہیں ویسے ہی بانی جماعت اسلامی حضرت مولانا ابو اعلیٰ موددی نے جماعت اسلامی، ٢٦ اگست ١٩٤١ء کو قائم کی۔ اس میں اور دوسری جماعتوں میں فرق کیا ہے۔پہلی بات کہ اس کو قائم کرنے والا ایک مجدد تھا نہ کہ عام مذہبی عالم یا عام سیاسی لیڈر۔ جب جماعت اسلامی بنی تو اس سے قبل مذہبی اور سیاسی جماعتیں قائم تھی۔ مولانا ابو اعلیٰ موددی پہلے سے موجود مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں شریک کیوں نہیں ہوئے اور ایک علیحدہ جماعت بنانے کی ان کو کیوں سوجی۔ صحیح بات یہ ہے کہ موددی ایک عرصے سے لوگوں کو ایک خاص نکتے پر جمع کر رہے تھے۔ وہ نکتہ یہ تھا کہ مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کا پھر سے احیاء ہو، جیسے مولانا موددی حکومت الہیا کہتے ہیں۔ اس پر پہلے سے قائم جماعتوں کے لوگ متفق نہیں ہو رہے تھے اس لیے مولانا موددی نے جماعت اسلامی بنائی۔کسی نے کہا کہ چودہ سو سال پہلے کا نظام کیسے قائم ہو سکتا ہے۔دنیا بہت بدل گئی ہے وغیرہ۔آخر کار مولانا موددی کی آواز پر برطانوی ہند میں سے صرف پچھتر افراد اس بات پر تیار ہوئے۔

یہ لوگ لاہور میں جمع ہوئے اور دنیا کی منفرد دینی جماعت ٢٦ اگست ١٩٤١ء مولانا موددی کی قیادت میں وجود میں آئی۔سب سے پہلا سوال یہ اُٹھا کہ ُاسی وقت برصغیر کے مسلمان میں قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان بھر پاہ کیے ہوئے تھے۔ ایک سال قبل ١٩٤٠ء میں قرارداد پاکستان پاس ہو چکی تھی۔موددی مسلم لیگ میں کیوں نہیں شریک ہوئے اور ایک علیحدہ جماعت کیوں بنا ڈالی۔کم فہم لوگ اس بات کا ادراک نہیں رکھتے تھے کہ مولانا موددی کی زراف نگاہی دیکھ رہے تھی کہ قائد کے ارد گر،د ینی حضرات کو چھوڑ کر باقی لوگ یا تو موقعہ پرست، سرمایہ دار، جاگیر دار،کیمونسٹ اورچھپے ہوئے قادیانی ہیں۔ جو پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے مقاصد یعنی قراداد پاکستان کی رو کے مطابق نئی بننے والی ریاست کے نظام کو قطعاً نہیں چلائیں گے۔ملک تو انشاء اللہ عام لوگوں کی قربانیوں اور جدو جہد سے حاصل ہو جائے گا اور ہو بھی گیا۔ مگرمولانا موددی کے ذہن میں جس ملک کا نقشہ تھا اس کو چلانے والوں کے لیے کچھ مخصوص قابلیت کے لوگ درکار تھے جس کے لیے وہ ایک عرصہ تیاری اور ذہن سازی کر رہے تھے۔ اس کواس طرح سمجھنا چاہیے کہ مولاناموددی نے تحریک پاکستان کے دوران قائدکے دو قومی نظریہ کی مدد مسئلہ قومیت لکھ کر کی۔ جو آج بھی کتابی شکل میں موجود ہے۔

مولانا موددی آل انڈیا مسلم لیگ کی دستوری کمیٹی کے ایک ممبر تھے۔ پاکستان بننے کے بعد قائد نے مولانا موددی کو حکم دیا کہ وہ نئی مملکت پاکستان کو اپنے طے کیے گئے نقشے کے مطابق اسلامی بنانے کے لیے پاکستان قوم کی رہنمائی کریں۔ مولاناموددی ریڈیو پاکستان پر پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے کئی تقاریر کیں۔ یہ تقریریں کتابی شکل اور ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں اب تک موجود ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے پاکستان کا خواب دیکھنے والے حضرت علامہ شیخ محمد اقبال نے مولاناموددی کا رسالہ ترجمان القرآن پڑ ھتے تھے جس میں وہ لوگوں کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنے کی طرف بلا رہے تھے۔ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ ایک طرف قائد پاکستان حاصل کرنے کی جد وجہد کر رہے ہیں تو دوسری طرف مولانا موددی مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے چلانے والے لوگوں کو اکٹھا کر رہے تھے۔یوں سمجھیں کی ایک طرف آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان حاصل کرنے کی جد وجہد میں لگی ہوئی تھی اور مولانا موددی کی جماعت اسلامی اس کو چلانے والوں ہیروں کو معاشرے سے اکٹھا کر رہے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ علامہ اقبال نے موددی کو حیدر آباد سے پنجاب آنے کی دعوت دی۔ جسے مولانا موددی نے قبول کیا اور چوہدری نیاز علی خان کے جمال پور پٹھان کوٹ میں بنے ادارے دارسلام میں بیٹھ کر ایک اسلامی ریاست کو چلانے کی تدبیریں کرنے کا پروگرام بنایا۔ علامہ اقبال نے مولاناموددی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جمال پور پٹھان کوٹ میں سال کے چھ ماہ گزرا کریں گے۔ مگرمولاناموددی کے جمال پورپٹھان کوٹ آنے کے ایک ماہ بعد علامہ اقبالاللہ کو پیارے ہوگئے۔(حوالہ٤٠ خط وکتابت، مکتوب درمیان چوہدری نیازی علی خان اور مولانا موددی صفحہ نمبر١٠٣ سے٣٠٧ تک کتاب اقبال داراسلام مودد ی تصنیف اسد گیلانی سال اشاعت ١٩٧٨ء ناشر اسلامی اکادمی اردو بازار لاہور ۔

یہ جو باتیں ہم نے تحریر کیں ہے کوئی ہوا میں باتیں نہیں ہیں۔ یہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے شیطان کے چیلوں کا جو جماعت اسلامی پر تحریک پاکستان اور قائد کے مخالف ثابت کرتے رہتے ہیں۔جماعت اسلامی مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کے لیے اپنا کام کرتی رہتی ہے اور اسلام مخالف لابیاںاس کے خلاف طرح طرح کے ناجائز شوشے چھوڑتی رہتی ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت دے ۔آمین۔
اس تجزیے کے بعد اب آتے ہیں کہ جماعت اسلامی کیا ہے۔ سیاست میںکامیا ب کیوں نہیں ہوتی۔ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ جماعت اسلامی عام جماعتوں کی طرح جماعت نہیںبلکہ ایک دینی جماعت ہے۔ اگر ذرا غور سے تجزیہ کریں توجماعت اسلامی پیغبروں کے جماعتوں کے قریب ترین ہے۔ہر پیغمبر نے قرآن میں کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔تم بھی اللہ کے بندے بنو، یعنی توحیدی بنو۔ مجھے تم سے اس دعوت کے بدلے اجر نہیں چاہیے۔ میراجر میرے اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ میں امین ہوں۔ یہی جماعت اسلامی کادستور ہے۔ یہی بات جماعت لوگوں کو بتاتی ہے ۔ اس کے دستور مطالعہ کرلیں وہ توحید کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔ جماعت لوگوں کواللہ کی طرف بلاتی ہے اور کہتی ہے اس کو لوگوں سے اجر نہیں چاہیے۔ بلکہ اسے اللہ سے اجر چاہیے جو اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ جماعت بھی ایک امین جماعت ہے۔ اسکے ارکان پر آج تک کرپشن کا الزام نہیں لگا۔بلکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ، سپریم کورٹ کے معزز جج صاحب کی ابزرویشن ہے کہ اگر پاکستان کے آئین کی دفعہ ٦٢۔٦٣ پر سیاست دانوں کو پرکھا جائے تو جماعت اسلامی کے امیر کے سوا کوئی بھی پورا نہیں اُترتا۔ جماعت اسلامی دیگر سیاسی دینی جماعتوں کی طرح مورثی جماعت نہیں۔ جماعت کاکوئی بھی کارکن دین میں آگے نکل کر تقویٰ کی بنیاد پراس کا امیر بن سکتا ہے۔جماعت اسلامی کے امیر کسی مخصوص علاقہ ،قوم ، زبان بولنے والوں نہیں ہوتے۔یعنی جیسے پیپلزپارٹی کا سربراہمیشہ سندھی،نیشنل عوامی پارٹی کا سربراہ پٹھان،بلوچ نیشنل پارٹی کا سربراہ بلوچ وغیرہ۔ بلکہ اس کا امیر پہلا مہاجر،دوسرا پنجابی ،تیسرا پٹھان ،چوتھا پھر مہاجر اور موجودہ پھر پٹھان ہے۔

جماعت اسلامی انتخابات کیوں نہیں جیتتی۔ ٹھیک ہے جماعت انتخابات نہیں جیتتی۔ ویسے ٢٠١٢ء میں متحدہ مجلس عمل کے تحت خیبر پختونخواہ میںانتخابات جیت کر پانچ سال حکومت کی۔ جماعت اسلامی نے شروع سے صرف انتخابات جیتنے کا پروگرام نہیں بنایا تھا۔ بلکہ جماعت نے تطہیر افکار، تعمیر افکار،صالح افراد کی تلاش ،ان کی تربیت، اصلاح معاشرہ اور آخری میں نظام حکومت کی تبدیلی کا پروگرام بنایا۔یعنی انتخابات میں جمہوری طریقے سے جیت کر مدینہ کی اسلامی فلاح ریاست کا قیام۔ اب لوگ جماعت کو مروجہ انتخابات، جیتنے اور ہارنے کے پیمانے پر تولتے رہتے ہیں۔ جماعت کے باقی کاموں کو اگنور کر جاتے ہیں۔ جماعت کی کامیابی کو اگر تولنا ہے تو دکھیں کہ جماعت اسلامی کی دعوت کہاں کہاں پہنچ چکی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، مقبوضہ کشمیر بلکہ اس سے متاثر تنظیمیں پوری دنیا کے اندر کام کر رہی ہیں۔مولانا موددی کا لٹریچر پوری دنیا کی زبانوں میں پہنچ چکا ہے۔بقول مرحوم میاں طفیل صاحب سابق امیر جماعت کہ، پانی گھاس کے نیچے پینچ چکا ہے۔ کسی وقت بھی گھاس کے اُوپر آسکتا ہے۔

صاحبو! جماعت اسلامی انسانوں کی جماعت ہے اس میں یقیناً خرابیاں بھی ہے۔ اس کی اصلاح ہونے چاہیے۔کوئی ایس نظام ترتیب دینا چاہیے کہ جس سے دوسری کامیابیوں کے ساتھ الیکشن میں بھی جماعت کو کامیابی ملے۔مگر ایک بات طے ہے کہ دنیا میں صرف جماعت اسلامی ہی ایک جماعت ہے جس کی بنیاد اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے رکھی گئی تھی۔ جو آج بھی اسی بنیاد پر قائم ہے۔ اپنا تحریر اس بات پر ختم کرتا ہوں جو بانی جماعت اسلامی نے مسلمانوں سے کہی تھی کہ” قرآن اور سنت کی دعوت لے اُٹھو اور ساری دنیا پر چھا جائو” اللہ جماعت سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں کو کامیاب کرے۔ یہی جماعت اسلامی کے قیام کا پیغام ہے۔آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ