جماعت اسلامی کا ٧٧واں یوم تاسیس ٢٦ اگست

Jamaat e Islami

Jamaat e Islami

تحریر : میر افسر امان
جماعت اسلامی کا ٧٧ واں یوم تاسیس ٢٦ اگست کو منایا جا رہا ہے۔ اس دوران جماعت اسلامی نے کیا پایا کیا کھویا اس پر گفتگو کرنے سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے پہلے یوم تاسیس کے وقت کس منزل کو حاصل کرنے کا تعین کیا تھا۔ اس مقصد کی تلاش میں جب ہم جماعت اسلامی کی اپنی مرتب کردہ روداد(تاریخ) سے رجوع کرتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بنانے والے سید ابواعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کے تاسیسی اجلاس میں اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کا عہد کیا تھا جسے عام زبان میں حکومت الہیا، اسلامی نظام، یا نظام مصطفے کہتے ہیں۔

اسلامی نظام کے حصول کے لیے جماعت اسلامی سے پہلے بھی تحریکیں قائم تھیں۔ان تحریکوں نے اپنی حد تک کوششیں بھی کیںلیکن ان سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے تھے جو ایک مکمل اسلامی نظام کے لیے ضروری تھا۔جب ہم رہنمائی کے لیے اللہ کے قرآن کا گہرے انداز میں مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر وں اور ان کی بنائی ہوئی جماعتوں نے کس طرح اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے انسانوں کا کیسا نظم قائم کیا اور اس نظم سے کیسے انسان تیار ہوئے۔سب سے پہلی بات جو اللہ کے پیغمبروں انسانوں سے کہی وہ یہ تھی کہ میں اللہ کا پیغام تم تک پہچانے کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہوں۔میں اللہ کا بندہ ہوں تم بھی صرف اللہ کے بندے بنو یعنی شرک نہ کرو۔دوسری بات جو کہی وہ یہ تھی کہ مجھے تم سے اس کام کے کرنے کے لیے کوئی اجر نہیں چاہیے میرا اجر میرے رب کے پاس محفوظ ہے۔

تیسری بات جو کہی وہ یہ تھی کہ میں امین ہوں یعنی امانت دار ہوں۔ان باتوں کو عوام کے سامنے کرنے کے بعد کوئی پیغمبر اپنے مشن میں کامیاب ہوا اور کسی کی بات لوگوں نے نہیں مانی۔ حضرت نوح ٩٠٠ سال تک اللہ کے پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچاتے رہے لیکن اس مدت میں صرف اتنے لوگوں نے بات مانی جو ایک کشتی میں سوار ہو سکے۔لہٰذا یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بندے کو اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہچانے کی ذمہ داری ہے۔

Quran

Quran

کتنے لوگ مانتے ہیں کتنے لوگ نہیں مانتے یہ اللہ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ بندے کی کوششوں پر منحصر نہیں۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ جو بھی اللہ کے راستے میں جان کھپائے گا اس کا اجر اللہ کے پاس محفوظ ہے۔اللہ اسے ان دنیا میں اور آخرت میں بھی اس کی محنت کا پھل دے گا۔اگر ہم قرآن میں بیان کی گئی ان ہدایات کے مطابق جماعت اسلامی کے قیام اور اس کی جد وجہد اور کامیابی اور نا کامی کا جائزہ لیں تو جماعت اسلامی کی اصل کامیابی یا ناکامی ہمارے سامنے آ سکے گی۔ جماعت اسلامی عرف عام میں صرف سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دینی جماعت جو دعوت کاکام کرتی ہے ۔جماعت اسلامی اللہ کے قرآن اور رسولۖ کی سنت سے ہدایات لے کر عوام کے درمیان اصلاح کا کام کرتی ہے جس میں سیاست بھی شامل ہے۔ کوئی فرد بھی جماعت کا کوئی بھی رکن نہیں بن سکتا جب تک وہ اللہ سے عہد نہیں کرتاکہ اس کی زندگی کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ ک کلمہ بلند کرنا ہے یعنی اسلامی نظام زندگی قائم کرنا ہے۔ اس کے ارکان اسلام، یعنی توحید، نماز، زکوةٰ، روزہ اور حج پر سختی اور پابندی سے عمل کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی اصلاح کے اس کام میں لوگوں سے اجر نہیں مانگتی بلکہ کہتی ہے اس کا اجر اللہ کے پا س محفوط ہے ۔ اس کی تشریع یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگ اقتدار میںاس لیے شامل نہیں ہوتے کہ وہ پرمٹ، ٹھیکے،نوکریاں یا کوئی اور مراعات حاصل کریں۔ بلکہ وہ کہتے ہیں ہم اقتدار میں عبادت کے لیے شامل ہوتے ہیں اور سیاست کو بھی عبادت سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی امانت دار افراد کی جماعت ہے اس نے عوام کی امانتوں میں کبھی بھی خیانت نہیں کی۔ پاکستان میں اس کے ہزاروں لوگ الیکشن جیت کر عہدوں پر تعینات ہوئے مگر آج تک کوئی بھی کرپشن میں ملوث نہیں ہوا۔اگر ہم جماعت کی ان خوبیوں کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو ایک انصاف پسند انسان کو معلوم ہوتا ہے جماعت اسلامی قرآن میں بیان کردہ انبیا کی جماعتوں کو اپنا رول ماڈل بنا کر کام کر رہی ہے لہٰذا ان کے قریب تر ہے۔اس جماعت میں مورثی لیڈر شپ نہیں ہے جب کہ پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں یہ مرض موجود ہے۔

جماعت اسلامی ایک جمہوری اور دستوری جماعت ہے اس نے آج تک کوئی بھی کام انڈر گرائونڈ رہ کر نہیں کیا۔ کسی دہشت گردی میں شامل نہیں رہی۔ عوام کو جمہوری طریقے سے اسلامی نظام کی طرف بلاتی ہے چائے کوئی مانے چائے کوئی نہ مانے۔ اس کا ایک تحریری دستور ہے جس پراوّل روز سے عمل پیرا ہے۔اس کے مرکزی امیر سے لیکر ایک یونٹ کے ناظم تک بقاعدگی سے چنائو کے تحت منتخب ہوتے ہیں۔

جماعت اسلامی قرآنی اصول کے مطابق ایک شورائی جماعت ہے اس کے سارے فیصلے باہمی مشاوارت سے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی باہر سے یا اندر سے اس پر اپنا فیصلہ ٹھونس نہیں سکتا۔ جماعت بنتے ہی اس کے کام کو چار نکاتی کام میں بانٹ دیا گیا تھا۔ تتہیر افکار اور رتعمیر افکاریعنی لوگوں کے اندر جو قرآن و حدیث سے ہٹ کر افکار در آئے ہیں ان کی تتہیر کی جائے ۔اس کے لیے جماعت اسلامی ایک اصلاح معاشرے پر کام کر رہی ہے۔ پورے پاکستان میں فہم قرآن و سنت کے بڑے پیمانے پروگرام ہوتے ہیں لوگوں تک اللہ اور اس کے رسول کا پیغام پہنچایا جاتاہے۔ پاکستان بھر ہریونٹ میں میں درس قرآن اور درس حدیث ہوتا ہے۔

رمضان میں دورہ قرآن کے پروگرام ہوتے ہیں۔ جماعت کے ہر فرد پر مطالعہ قرآن، حدیث اور اسلامی لٹریچرلازم ہے اس سے تتہیر افکار اور تعمیر کا کام اسلامی طرز پر ہوتا ہے۔ صالح افراد کی تلاش اور ان کو نظم میں سمونے کے تحت معاشرے میں جو بھی جماعت اسلامی کے پروگرام سے اتفاق رکھتے ہیں اور ملک میں اسلامی نظام کا داعی ہے اس سے رابطے پیدا کر نے کا کام ہوتا ہے افراد تلاش کیے جاتے ہیں تاکہ ان کو جماعت کے نظم میں شامل کیا جا سکے اور پاکستان میں جمہوری طریقے سے اسلامی نظام قائم کیا جا سکے۔

Election

Election

تتہیر افکاراور تعمیر افکار، اصلاح معاشرہ، صالح افراد کی تلاش اور ان کو جماعت اسلامی کے نظم میں سمونے کے ساتھ ساتھ نظام حکومت کی تبدیلی کے تحت ملکی الیکشن میں حصہ بھی لیا جاتا ہے تاکہ حکمرانوں کو بھی اسلامی نظام پر تیار کیا جائے اور پارلیمنٹ میں جا کر اسلامی قانون سازی بھی کی جائے۔تاکہ بلا آخر جماعت اپنا ملک میں اور اس کے بعد دنیا میں حکومت الہیا کا مقصدحاصل کر سکے۔قارئین! اب ہم ایسے اوصاف رکھے والی جماعت اسلامی کی کامیابی اور ناکامی کا جائزہ لیتے ہیں۔ان حالات میںجماعت اسلامی کی کامیابی کو صرف اس کے الیکش میں کامیابی اور ناکامی کے پیمانے پر ناپنے کی کوشش کر کے اکثر کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے نصف صدی سے زیادہ مدت میں کیا کامیابی حاصل کی ۔خیرتو یہ ان کا حق ہے مگر جس حضرات پر جماعت کے اوپر بیان کیے گئے سارے کاموں پر نظر ہوتی ہے تو وہ بھی کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ جماعت ایک اصلاحی، نظریاتی اور نظریہ پاکستان پر کامل یقین رکھنے والی جماعت ہے۔

وہ عرف عام میںصرف الیکشن لڑنے والی جماعت نہیں۔ اس نے اپنے شروع کردہ پروگرام کے تحت الیکشن سے ہٹ کر بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جماعت اسلامی ایک نہ ایک دن الیکشن میں کامیاب ہو گی انشاء اللہ۔ کیا جماعت کی دعوت کے نتیجے میںلاکھوں لوگوں کی زندگیاں تبدیل نہیںہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی نے دوسرے لوگوں سے مل کر ملک کے اندر دستوری مہم شروع کی تھی جس کا ثمرہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی دستور بنا۔پاکستان میں سرخ سویرے اور ایشیاء سرخ ہے کو لگام دینے میں جماعت اسلامی کا دخل ہے۔

جماعت کی دعوت کے نتیجے میں ہزاروں لکھنے والے لوگ پیدا ہوئے جن میںسیکڑوں کالم نگار بھی اس کام میں شریک ہیں۔جماعت اسلامی نے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ پیدا کیے۔ قائد اعظم کے پاکستان کو جعلی طریقوں سے سیکولر ثابت کرنے والوں کے سامنے جماعت اسلامی نے بند ھ رکھا ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جو ٢٦ اگست کو اپنا ٧٧وان یوم تاسیس منا رہی ہے۔ ہماری دعا ہے اللہ جماعت کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور اپنے نیک مقاصد میں کامیاب ہو آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسرامان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان