تحریر : سجاد گل بھارت میں بمبئی میں حملوں کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے،ایک ٹی وی چینل اس کا ہمنوا بن کر یہاں ایک اجمل قصاب کا گھر ڈھونڈ نکالتا ہے،اسے ٹی وی پر دیکھایا جاتا ہے،دنیا کو باور کرایا جاتا ہے کہ کسی شک کی ضرورت نہیں بمبئی حملے پاکستان نے ہی کئے ہیں، وہ چینل ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے کہ کسی طرح وہ ثابت کر سکے کہ ان حملوں کے پیچھے حافظ سعید کا ہی ہاتھ تھا،کبھی وہ حافظ سعید کی دفاعِ پاکستان کونسل کو نشانِ تنقید بناتا ہے تو کبھی جماعة الدعوہ کے نظریہ پاکستان کنونشنز پر تعن تشنیع کرتا نظر آتا ہے،اور کبھی جماعة الدعوہ کو لشکر طیبہ سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے،اور ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جس میں جماعة الدعوہ پر ضرب آتی ہو۔
دوسری طرف بھارت کا بھی یہی حال ہے کہ اسے بھی جماعةالدعوہ کا ہیضہ اور حافظ سعید کا بخار چڑھا ہی رہتا ہے ،کبھی وہ نائن الیون کو حافظ سعید سے جوڑنے کی مضحکہ خیز کوشش کرتا ہے تو کبھی اسامہ بن لادن اور حافظ محمد سعید کو ایک ہی استاد کے دو شاگرد کہہ کر عجیب و غریب زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں پیش پیش رہتا ہے۔
بھارت کا ملیریا تو سمجھ آتا ہے کہ وہ ایک محبِ وطن پاکستانی شہری حافظ محمد سعید کو کیونکر ہضم کر سکتا ہے ،جب کہ حافظ سعید کی جماعت پاکستان میں پیش آنے والی تمام قدرتی آفات ،زلزلہ و سیلاب وغیرہ میں پیش پیش نظر آتی ہے،وہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں آنے والازلزلہ ہو یا پنجاب میں آنے والا سیلاب،وہ تھرپارکر کا قحط ہو یا کوئی تخریب کاری کا کوئی حادثہ ہر جا جماعة الدعوہ کے کارکنان لائٹ پیرٹ گرین جیکٹیں پہنے دیکھائی دیتے ہیں، خاص بات یہ کہ کشمیریوں کے حقوق کی بات ہو یا بھارت کی دیگر زیادتوں کا معاملہ حافظ سعید بھارت کو دو ٹوک انداز میں للکارتے نظر آتے ہیںایک ایسا پاکستانی جو اپنی زندگی اسلام اور پاکستان کے نام کر چکا ہووہ بھارت کی آنکھ کا کانٹا ہی ہو سکتا ہے۔
India
حافظ سعید کا یہ اندازِ زندگی بھارت پر بوجھل ہو تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ مگر پاکستان کے اس ٹی وی چینل کامرض ِٹی بی سمجھ سے بالاتر ہے، یہ چینل عموماََ ایسی چیزوں کو دیکھانے میں سرِفہرست رہتا ہے جو پاکستان کے استحکام کے مخالف ہوں،وہ چینل جو آٹھ گھنٹے تک آئی ایس آئی کے چیف کی فوٹو دیکھا دیکھا کر انہیں مجرم بنا کر خبر چلاتا رہا ،جو بھارت کے ایجنڈے کو امن کی آشا کے نام سے پاکستان میں پروان چڑھاتا رہا،ایسے چینل سے کس قسم کی توقعات رکھی جا سکتی ہیں ؟اسکی حرکات وسکنات سے تو کسی طرح نہیں لگتا کہ یہ پاکستان کاہی ٹی وی چینل ہے،ہمیں یہ بات کسی صورت نہیں بھولنی چاہئے کہ ہم پہلے انسان ہیں ،پھر مسلمان ،پھر پاکستانی اور اس کے بعد صحافی ،ڈاکٹر،انجینئر اور بزنس مین ہیں،مگر اس ٹی وی چینل کے ہاں اس مفروضے کی کوئی اہمیت نہیں ،جوچاہئے دیکھا سکتا ہے ،جو مرضی چلا سکتا ہے اور جو من میںآئے بول سکتا ہے،خواہ اس میں ملکی مفاد ہو یا پھر ملک کی عزت خاک میں ملتی رہے۔
اب میں آگے ایسی باتیں کرنے جا رہا جو سنتے ہی آپ اپنی ہنسی روکنے کی قوت کھو کر اتنا ہنسیں گے کہ آپ کے پیٹ میں درد شروع ہو جائے گا، جی جناب آج کل منظرِ عام پر یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ جماعة الدعوہ نے پاکستان کے دل لاہور میں اپنی شرعی عدالتیں قائم کی ہوئی ہیں جو کہ آئین پاکستان سے سرا سر متصادم ہیں، جس ٹی وی چینل کا میں اوپر ذکر کر کے آیا ہوں انہوں نے تو اپنے ایک پرگرام میںایسا شخص بھی دیکھا دیاجسکا مقدمہ جماعة الدعوہ کی شرعی عدالت میں چل رہا ہے، کہتے ہیں کے جھوٹے کی عقل مر جاتی ہے،نجانے یہ لوگ ایسی مضحکہ خیز خبر یںچلا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں،کس کو خوش کرنا چاہتے ہیں ،اور اس کا مقصد کیا ہے۔
Jamaat-ud-Dawa
جب کہ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ جماعت الدعوہ دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح مقدمات میں قرآن و سنت کی روشنی میں ثالث کا کردار ادا کرتی ہے یہ بات نئی نہیں بلکہ اپنے وجود سے لے کر آج تک جماعة الدعوہ یہ کر رہی ہے ثالث کا یہ کردار اسلامی اصولوں پر منحصر ہوتا ہے، یہ عمل آہینِ پاکستان سے کسی طرح متصادم نہیں، بلکہ کسی مقدمہ میں یہ ایسا ہی کردار ہے جیسے ”کے پی کے”بلوچستان اور کشمیر میں جرگہ سسٹم اور پنجاب اورمیں پنچائت کا طریقہ کار،یعنی دو فریقین کے تنازعہ کو انصاف کے ساتھ مل بیٹھ کر ختم کرکے صلح کرا دی جاتی ہے،کیوں کہ میرا تعلق ”کے پی کے ”ہزارہ سے ہے ،میں اس عمل کا چشم دید گواہ ہوں کہ ہمارے ہاں زیادہ تنازعات گائوں کا جرگہ بیٹھ کر احسن طریقے سے حل کر دیتا ہے۔
یوں فریقین پولیس اور عدالتوں کے گمبھیر مسائل سے بھی بچ جاتے ہیں اور مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اور دونوں فریقین ہنسی خوشی جرگے کا فیصلہ مان لیتے ہیں، اور اگر یہ کام کوئی عالم دین ، فلاحی تنظیم یا جماعت کرے تو اس میں کیا برائی ہے، بلکہ یہ تو ایک نیکی کا کام ہے کہ دو ایسے فریق جن کے درمیان کسی معاملے میں اَن بَن ہو گئی ہو اور آپ انصاف کے مطابق اصل حقدار کو اسکا حق دیکر دونوں کو سمجھا بجھا کر صلح کرا دیں،ایمانداری سے بتایئے گا۔
اگر جماعة الدعوہ ایسا کوئی عمل کرتی ہے تو اس میں زرہ برابر بھی برائی ہے؟ جرگہ، پنچائت اور ثالث کے عمل سے نظام ِ عدالت کی مخالفت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا،بلکہ تنازعہ اور مسئلہ کی نویت کے مطابق یہی جرگہ و پنچائت کے لوگ پولیس اور عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹاتے ہیں،رہی بات حافظ سعید اور جماعة الدعوة کی، میرے خیال میں تو حافظ سعید کی آدھی عمر تو گزری ہی عدالتوں کے چکر کاٹنے میں ہے، لیکن ان کے منہ سے کبھی آئینِ پاکستان اور عدلیہ کی مخالفت کا ایک لفظ بھی نہیں سنا گیا،بلکہ وہ گاہے بگائے اپنے مقدمات عدالتوں میں لے کر بھی جاتے رہتے ہیں،جماعة الدعوة کے خلاف یہ پراپیگنڈہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے ،یہ کام اسی لابی کا ہے جو ہیں تو پاکستانی شہری ،مگر ساتھ ان کا دیتے ہیں جو پاکستان کے ازلی دشمن ہیں۔
Sajjad Gul
تحریر : سجاد گل (دردِ جہاں) dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009 D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi