تحریر : علی عمران شاہین گزشتہ ہفتے پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے کی خبر نے ملکی، بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا میں خوب ہلچل مچائی۔ انگریزی روزنامہ ”ڈان” میں شائع ہونے والی خبر یہ تھی کہ جماعة الدعوة نے لاہور میں اپنی الگ متوازی عدالت قائم کر رکھی ہے جہاں لوگوں کو حکم نامہ بھیج کر بلایا جاتا ہے، مقدمات کی سماعت ہوتی ہے، عدالت میں حاضر نہ ہونے پر سخت ایکشن لینے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ خبر کا سامنے آنا تھا کہ وہ تمام حلقے جو جماعة الدعوة کے خلاف دلوں میں بغض پالے ہوئے تھے، یک دم ہنگامہ اٹھانے لگے کہ جماعة الدعوة نے ملکی قانون اور آئین کو چیلنج کیا ہے، لہٰذا فوری طورپر اس کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جائے۔
کہا جانے لگا کہ حکومتی رٹ کہاں ہے؟ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے پنجاب کے دارالحکومت میں اتنا بڑا متوازی حکومتی نظام چلایا جا رہا ہے اور حکومت کو ہوش ہی نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ خبر کے سامنے آتے ہی مخصوص حلقوں کے طوفان اٹھانے پر جماعة الدعوة نے وضاحت جاری کی کہ انہوں نے کوئی متوازی عدالت قائم نہیں کی بلکہ مصالحتی ثالثی کونسل قائم کر رکھی ہے جو فریقین کی باہمی رضامندی سے مقدمات کا کتاب و سنت کی روشنی میں فیصلہ سناتی ہے۔ (اس کونسل کو عرف عام میں پنچایت یا جرگہ بھی کہا جا سکتا ہے)۔ جماعة الدعوة پاکستان کے ملکی عدالتی نظام پر پورا یقین رکھتی ہے اور اس کی دلیل جماعة الدعوة کا ملکی عدالتی نظام کی طرف حصول انصاف کیلئے مسلسل رجوع کرنا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ جماعة الدعوة آج ہی نہیں روز اول سے ملکی عدالتی نظام کی طرف انصاف کیلئے رجوع کرتی رہی ہے اور اس وقت بھی لاہور ہائیکورٹ میں امیر جماعة الدعوة حافظ محمد سعید کی جانب سے دائر کئے گئے 11مقدمات زیر التو اہیں۔
جماعة الدعوة کے حوالے سے متوازی عدالتی نظام کا ہنگامہ لاہور کے رہائشی خالد سعید نامی ایک شخص کی جانب سے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور اعلیٰ حکام کو لکھے ایک خط سے کھڑا ہوا جس میں خالد سعید نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے جماعة الدعوة کی ”شرعی عدالت” کی جانب سے حاضر ہونے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے وگرنہ سخت ایکشن لینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس کی جانب سے کہا گیا کہ اب میری جان کو سخت خطرہ لاحق ہے کیونکہ میں اس حوالے سے جب بھی مقامی تھانے میں رپورٹ درج کرانے گیا تو وہاں جماعة الدعوة کی گاڑیوں کو کھڑے پایا۔ خوف سے میں تین ماہ سے دفتر نہیں گیا، وغیرہ وغیرہ۔ اس حوالے سے جب تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ خالد سعید نامی شخص تو خود ایک بہت بڑا فراڈیا ہے جس کے خلاف لاہور کے نصف درجن تھانوں میں 14مقدمات درج ہیں۔
Police
اس شخص کے بارے میں تھانہ سمن آباد کے ایس ایچ او سجاد احمد نے میڈیا کو بتایا کہ دراصل خالد سعید کا دوسری مخالف پارٹی کے ساتھ پیسوں کے لین دین کا تنازعہ ہے۔ اس نے بار بار وعدے کئے لیکن وہ 50لاکھ کی رقم ادا نہیں کر سکا۔ پولیس بار بار اس سے عدالتی حکم نامے کی تعمیل کرانے کی کوشش کر چکی ہے لیکن وہ تھانے پیش نہیں ہو رہا ہے۔ اب وہ اس طرح کے شرعی عدالت کے سمن دکھا کر معاملے کو مذہبی رنگ دے رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایسا کوئی سمن ہمارے پاس تھانے میں آیا ہے۔اس بیان کے ساتھ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے بھی کہا کہ انہیں ایسی کسی عدالت کا علم نہیں ہے اور نہ پولیس کو کچھ پتہ ہے۔ اگر ایسا ہوا تو قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے کہا کہ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ جماعة الدعوة کے مرکز میں ثالثی پنچایت قائم ہے لیکن ایسی کوئی متوازی عدالت قائم نہیں، جہاں لوگوں کو سزا دی جاتی ہو۔
یہ سارا قضیہ اس لحاظ سے بھی انتہائی دلچسپ اور حیران کن رہا ہے کہ جماعة الدعوة کے اکثر و بیشتر مراکز اور خصوصاً لاہور کے مرکز القادسیہ کی سکیورٹی کا انتظام و انصرام تو عرصہ دراز سے مقامی پولیس کے پاس ہے۔ امیر جماعت حافظ محمد سعید کی سکیورٹی بھی پنجاب پولیس ہی سرانجام دیتی ہے۔ اب بھلا پولیس کی نگرانی اور حفاظت میں کیا کوئی ایسی عدالت قائم ہو سکتی ہے جو سمن جاری کرتی اور سزائیں دیتی ہو؟ یقینا ہرگز نہیں۔ البتہ جو ثالثی کونسل یا پنچایت کا نظام قائم ہے، اسے تو دنیا بھر کا عدالتی نظام تسلیم بلکہ سپورٹ کرتا ہے۔ مغربی دنیا میں اکثر مقدمات کا فیصلہ عدالتیں نہیں بلکہ ایسی ثالثی کونسل کرتی ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام میں اس کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کر کے اس کیلئے فنڈز تک مختص ہیں کہ لوگوں کو فوری اور مفت انصاف فراہم ہو۔
ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سمیت سبھی عدالتوں کے جج دوران سماعت بھی اکثر و بیشتر فریقین کو اس بات کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ وہ باہم رضامندی سے ثالثی کونسل یا پنچایت وغیرہ کے ذریعے سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کروا لیں۔ ایسی پنچایتیں تو گلی محلے بلکہ گھر گھر میں موجود ہوتی ہیں۔ اسے کبھی کسی نے متوازی عدالتی نظام قرار نہیں دیا کیونکہ اس نظام میں فریقین باہمی رضامندی سے فیصلہ کرواتے ہیں اور ان کو اعتراض بھی کوئی نہیں ہوتا۔ یہ پنچایتیں کوئی جبر نہیں کر سکتیں اور نہ کسی کو جبراً طلب کر سکتی ہیں اور یہی معاملہ جماعة الدعوة کی ثالثی کونسلوں کا ہے۔ جماعة الدعوة کے ترجمان نے بھی کھل کر کہا کہ وہ ایسے کوئی سمن جاری نہیں کرتے اور اس حوالے سے اگر کوئی دستاویز خالد سعید نامی شخص پیش کر رہا ہے تو وہ سرے سے جعلی ہے۔
Jamaat ud Dawa Protest
چاہیے تو یہ تھا کہ اس تمام تر صورتحال کے سامنے آنے اور جماعة الدعوة کی جانب سے وضاحتیں پیش ہونے کے بعد ان تمام حلقوں کے خلاف حکومت سخت کارروائی کرتی جو اپنے ناپاک ارادوں کے باعث جماعة الدعوة کے خلاف پروپیگنڈا میں مصروف ہو گئے تھے۔ اس پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت نے اٹھانے کی کوشش کی جس کے میڈیا نے معمولی سی بات کا بتنگڑ بنایا اور پھر ان کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور دیگر لوگ پاکستان پر رکیک حملے کرتے رہے۔ ان سب کا مقصد صرف ایک تھا کہ پاکستان نے چند روز پہلے جو بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو اور اس کے ساتھی پکڑے اور پھر اس کے نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالا ہے، اس کے خلاف فضا کو نیا رخ دیا جا سکے۔ جماعة الدعوة کا پاکستان کے دفاع کے حوالے سے مؤقف صاف اور واضح ہے کہ وہ بھارت سے اپنا ہر جائز حق لینے کی بات کرتی ہے۔ ملک کے نظریات اور جغرافیے کے دفاع کیلئے ہمیشہ مستعد و متحرک رہتی ہے۔ ملک کے اندر جماعة الدعوة پر کسی قسم کی معمولی قانون شکنی کا معمولی الزام بھی نہیں اور کوئی مقدمہ بھی نہیں۔ یہی بات پاکستان اور اسلام دشمن اور بغض رکھنے والوں کو ہر وقت تکلیف دیتی اور کھٹکتی ہے۔
کیسی حیران کن بات ہے کہ اسی جماعة الدعوة کے خلاف بھارت عالمی مہم چلاتا ہے۔ امریکہ، دیگرعالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ پابندیاں عائد کرتی ہیں لیکن اسی بھارت میں مسلمانوں پر ہر روز بے پناہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں، کشمیریوں کی ہر روز لاشیں گرائی جاتی ہیں لیکن اس پر سارے عالم میں کسی پر کوئی جنبش بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ امریکہ و اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں اور شخصیات کو اٹھا کر دیکھ لیں، ان میں کوئی ایک بھی ہندو نہیں ملے گی۔ آخر کیوں؟ جماعة الدعوة کا پاکستان میں سارا ریکارڈ سب کے سامنے ہے کہ اس سے کسی محب وطن شہری کو کوئی مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے عوام تو جماعة الدعوة سے بے پناہ محبت کرتے ہیں جبکہ وہ مخصوص لابیاں جو اس ملک خداداد کی اصل دشمن ہیں اور پاکستان کے وجود ہی کو مٹانے کے درپے ہیں، ان کی جانب سے جماعة الدعوة کے خلاف دن رات زہر اگلا جا رہا ہے۔
جماعة الدعوة کے پاس نہ کوئی عسکری کی طاقت ہے، نہ کوئی اندھے وسائل اور نہ کوئی بیرونی و اندرونی طاقتوں کی مدد و حمایت۔ جماعت تو سب کچھ اللہ کی رضا کیلئے کرتی ہے اور اسی سے مدد طلب کرتی ہے اور وہی اس کے کاموں میں برکتیں اتارتا اور حفاظت کرتا ہے۔ جماعة الدعوة کی ثالثی کونسل سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا، بے شمار لوگ اس کے گواہ ہیں۔ اس طرح کی نیکی اور خیر کے عمل پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ضرور مدد کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن جن لوگوں نے جھوٹی زبانیں چلا کر ملک میں ایک نیا دنگا فساد مچانے اور محب وطن لوگوں کو داغ دار کرنے کی کوشش، انہیں ضرور بے نقاب کرنا اور انجام تک پہنچانا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کر سکے اور محب وطن حلقوں اور وطن عزیز کو نقصان نہ پہنچا سکے۔