پیپلز پارٹی کے رہنماء سنیٹر فرحت اللہ بابر نے چندروزپہلے اپنے ایک بیان میں یہ انکشاف کیا کہ پنجاب حکومت اپنے بجٹ سے جماعت الدعوة کو 61ملین روپے دیئے ہیں اوریہ بھی کہ حافظ سعید پر اقوام متحدہ نے پابندی عائد کی مگروہ آزادانہ کام کررہے ہیں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں فرحت اللہ بابر نے کہا کالعدم جیش محمد کے مولانا اظہر مسعود پر پابندی عائد ہے مگر وہ داخلی سلامتی پالیسی آنے سے تین دن پہلے آزاد کشمیر میں کتاب کی تقریب رونمائی میں موجود تھے۔بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے حقائق جانے بغیر سینٹر فرحت اللہ بابرکے بیان کو درست قرار دیا جارہا ہے جن میں وہ مذہبی جماعتیں اور شخصیات شامل ہیں جو حافظ محمد سعید سے ناصرف مسلکی اختلاف رکھتی ہیں بلکہ خودانکے اپنے دامن بھی صاف نہیں ہیں۔ دوسری طرف جماعت الدعوة کے سربراہ پروفیسرحافظ محمدسعید نے کہا کہ انہوں نے کبھی ایک پیسہ بھی نوازشریف حکومت سے نہیں لیا، رفاہی اداروں کیلئے فنڈز حکومت نے خود جاری کرکے اخراجات بھی خود ہی کئے ہیں۔
انہوں نے کہا فرحت اللہ بابر کی پارٹی نے انہیں گرفتار کرایا جماعت کو کالعدم قرار دیدیا لیکن لاہور ہائیکورٹ نے انہیں بے گناہ قرار دیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے لیکن سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ انہوں نے کہا فرحت اللہ بابر کو ساری معلومات نہیں ہیں تو اپنا غصہان کی بجائے عدالتوں پر نکالیں۔حافظ صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکولوں اور دیگر رفاہی کاموں کیلئے حکومت نے ازخود اخراجات کئے۔ جماعت الدعوہ نے تھر میں فلاحی کام کئے اور سینکڑوں کنوئیں کھدوائے،حکومت کی طرف سے انکے تعلیمی اداروں کو قبضہ میں لیکر جو ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے گئے ہیں ‘اگر ان کیلئے کوئی بجٹ مختص کیا گیا ہے تو جماعةالدعوة کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Jamat Ud Dawa
جماعت الدعوة کو مختلف ادوارمیں حکومت اوربین الاقوامی اداروں کی طرف سے پابندیوں اورتنقید کا نشانہ بنایا جاتارہا ہے،آج بھی بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جماعت الدعوة کا کردارآخرہے کیا،کیا یہ کوئی فلاحی ادارہ ہے،کوئی مذہبی نظریاتی اصلاح کی جماعت ہے یاپھرکوئی کوئی جہادی یاعسکری تنظیم۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت الدعوة کی آج بھی بڑی پہچان ایک جہادی تنظیم کی ہے اور جہاد، جماعت الدعوة کی بنیاد ہے۔جماعت الدعوة پرکی جانیوالی تنقید، پابندیوں اورالزامات سے پہلے اگرہم جماعت الدعوة کی بنیاد اوراس کے مقاصدپرنظرڈالیں تویہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ جماعت الدعوة خدمت خلق ،ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اورمذہبی حوالے سے اہم کرداراداکررہی ہے۔ جماعت الدعوة کی اٹھان میں دو شخصیات کا کردار کلیدی ہے۔ ایک ذکی الرحمن لکھوی جنھوں نے جماعت کو عسکری تنظیمی ڈھانچہ دیا اور دوسرے حافظ محمد سعید کے سسر اور ماموں حافظ محمد عبداللہ جنھوں نے اسے فکری بنیاد فراہم کی۔
جماعت الدعوة کے اہم رہنما مولانا امیر حمزہ نے اپنی کتاب ”قافلہ دعوت و جہاد” میں اس کا اجمال تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ذکی الرحمن لکھوی نے کس طرح سلفی علماء کو جہاد کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور اس کی یہ کاوشیں اس وقت رنگ لائیں جب پروفیسر حافظ محمد سعید ان کی دعوت پر جہاد پر آمادہ ہوئے۔ پروفیسر حافظ محمد عبداللہ نے تائید کی اور سلفی علماء کو پیغام دیا کہ ”یہ جمہوری ریاست جسے ہم نے اپنا رکھا ہے، یہ ہمارے لیے مناسب نہیں۔ آئو اس گندی سیاست کو ترک کر کے ہم سب ایک ہو جائیں، اپنی جماعت کے اندر امارت کا نظام قائم کریں، اس جماعت کو منظم کریں اور جہاد کی راہ پر لگائیں۔” (قافلہ دعوت و جہاد، صفحہ95)۔ اس محرک کی بنا پر 1987ء میں ایک جماعت تشکیل دی گئی جس کا نام ”مرکز دعوة الارشاد” رکھا گیا اور مرکز کا پہلا جہادی قافلہ 10 اگست 1987ء کو لاہور سے افغانستان روانہ ہوا (صفحہ99)۔ جہادِ افغانستان کے بعدجب کشمیر میں جہاد شروع ہوا تو مرکز دعوة الارشاد کے سپریم کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی کی کاوشوں سے 1992ء میں لشکر طیبہ وجود میں لائی گئی اور لالہ ابوحفص کو اس کا امیر مقرر کیا گیا جو 1993ء میں مقبوضہ کشمیر میں شہیدہو گئے تو کشمیر کا محاذ بھی لکھوی نے براہِ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
یہ مرکز دعوة الارشاد اور لشکرطیبہ کے لیے نقطہ عروج تھا اور مرکز کے عسکری شعبے لشکر طیبہ کا نام اس قدر معروف ہوا کہ اصل تنظیم کے نام پر غالب آ گیا۔ یہ سلسلہ دسمبر 2001ء تک ایسے ہی چلتا رہا اور جب نو ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد پاکستان میں جہادی تنظیموں پر دبائو بڑھا تو لشکرِ طیبہ کو مولانا عبدالواحد کشمیری کی زیرسرپرستی اور کمانڈر لکھوی کی کمان میں الگ حیثیت میں کشمیر تک محدود کر دیا گیا اور مرکز کا نیانام جماعت الدعوة تجویز ہوا۔ جنوری 2002ء میں لشکر پر پاکستان میں پابندیاں عائدکر دی گئیں لیکن کشمیر میں یہ گروپ متحرک رہا۔ اسی تسلسل میں حافظ سعید نظربند کر دیے گئے اور ان کی رہائی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہوئی جس میں جماعت الدعوة عدالت کو یہ قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ عسکری تنظیم لشکر طیبہ کا جماعت الدعوة سے کوئی تعلق نہیں۔ رہائی کے بعد حافظ سعید نے ملک بھر کے طوفانی دورے کیے اور جہاد کے پیغام کو زوروشور سے پھیلایا۔ اکتوبر 2003ء میں مرکز یرموک، پتوکی میں جماعت کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ”آج میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة کے مجاہدین کشمیر، ہندوستان اور ہر اس جگہ جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہے، جہاد کر رہے ہیں۔
جہاد ہم سب پر فرض ہے۔ یہ ہمارا بنیادی مقصد ہے اور جہاد کو بچانے کے لیے ہم اپنی جانیں تک قربان کر دیں گے۔”(ڈیلی ٹائمز، 18اکتوبر 2003ئ)۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جماعت الدعوة نے اپنے فلاحی کاموں کا سلسلہ بھی وسیع کیا۔ خاص طور پر اس کے ذیلی ادارے شعبہ خدمت ِخلق نے کشمیر کے زلزلے، سندھ اور بلوچستان میں سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کے دوران انسانی خدمت کے اعلیٰ معیار قائم کیے ہیں۔ جماعت الدعوة پر اقوام متحدہ کی پابندیوں سے قبل تک ملک بھر میں اس کی 148 ڈسپنسریاں، 7 ہسپتال، 82ایمبولینسز اور 65 بلڈ بینک کام کر رہے تھے۔ جماعت کے منافع بخش اداروں میں 400ماڈل سکول، 5 سائنس کالج اور 51مدارس کام کر رہے تھے جبکہ ملک بھر میں اس کے 73 مراکز بھی مصروف عمل تھے۔
جماعت الدعوة کو اگر ایک ادارے کے بجائے تحریک قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا جس کا تقابل پاکستان میں کسی اور عسکری، مذہبی، فلاحی ادارے یا مذہبی جماعت سے نہیں کیا جا سکتا جو ملتے جلتے مقاصد کے لیے محدود میدانوں میں کام کر رہے ہیں۔ جماعت الدعوة موجودہ جمہوری سیاسی نظام پرسِرے سے ایمان ہی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت الدعوة کا ہر کارکن خود کو انتخابی جمہوری عمل سے الگ رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جماعت الدعوة سیاسی اموراور معاملات سے خود کو الگ رکھتی ہے بلکہ نہ صرف قومی، علاقائی اور عالمی سیاسی امور پر اپنا واضح مؤقف رکھتی ہے بلکہ پاکستان میں کئی مذہبی سیاسی تحریکوں کی بانی بھی ہے۔ حافظ خالد ولید کے زیرنگرانی جماعت کا سیاسی امور کا شعبہ بھی کافی فعال رہا ہے۔
Newspapers
فاٹا میں فوجی آپریشن کے خلاف تحریک ہو یا سویڈش اخبارات میں نبی کریم ۖ کے گستاخانہ خاکوں کامعاملہ، ڈاکٹر عبدالقدیر پر پابندیاں ہوں یا عافیہ صدیقی کی حراست، جماعت الدعوة نے ان پر نہ صرف اپنے نقطہ نظر کے مطابق واضح مؤقف اختیار کیا بلکہ دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر باقاعدہ احتجاجی پلیٹ فارم بھی تشکیل دیے۔ تحریک حرمت رسولۖ، مجلس تحفظ حقوق اللہ اور متحدہ علماء کونسل ایسے ہی کثیرالجماعتی اتحاد ہیں جو جماعت الدعوة کی تحریک پر وجود میں آئے۔ تحفظ حقوقِ نسواں بِل کے خلاف جماعت نے وسیع پیمانے پر دستخطی مہم چلائی اور اس کے دعویٰ کے مطابق ایک کروڑ پندرہ لاکھ افراد نے اس قرارداد پر دستخط کیے۔