جماعة الدعوة، ابتلا و آزمائش

Jamaat-ud-Dawa

Jamaat-ud-Dawa

تحریر: تنویر احمد
امت مسلمہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب قوموں نے کسی بھی تحریک کی بنیاد رکھی تو آزمائش ان کا مقدر بنی۔ صحابہ کرام کو بھی اسی اسلامی تحریک کی بنیاد رکھنے پر کٹھن ابتلاء و امتحان سے گزرنا پڑا لیکن انہوں نے ان تمام تکالیف کو اللہ کی محبت کی خاطر قبول کیا۔ ثابت قدمی اختیار کی اور اللہ سے مدد کی دعائیں کرتے رہے۔ پاکستان اللہ کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔ مملکت خداداد پاکستان بے شمار قربانیوں کے کڑے امتحان کے بعد مسلمانوں کو نصیب ہوئی اور اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی اور حاکم اعلیٰ اللہ رب العزت کو بنایا گیا تاکہ اللہ کی زمین پر اللہ کانظام قائم کیا جاسکے اور مسلمان اپنی ہر طرح کی عبادت آزادی کے ساتھ مکمل کریں اور اسی نظام یعنی قرآن و سنت کے قوانین پر مسلمان اپنی زندگیاں استوار کریں۔

وقت اور حالات کے بدلتے دھاروں کے ساتھ حکمران طبقہ اس بات کو بھول گیا کہ اس مملکت کی بنیاد کس چیز پر رکھی گئی تھی جو کام وقت کے حاکم کا تھا، اس کام کو پاکستان کی عوام اور ان کے مذہبی رہنمائوں نے سنبھالا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان مذہبی دوریاں بڑھیں اور جو کام حکمرانوں کا تھاہ وہ علماء نے اپنی کوششوں کے ساتھ جاری رکھا۔ ان کی کوششوں سے عوام اور علماء کے درمیان محبتوں کانہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
اس عمل کے بعد ملک کے مختلف حصوںمیں دینی جماعتیں وجود میں آئیں جنہوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارم پر دین کا کام شروع کیا ۔ انہی جماعتوں میں سے ایک نام جماعت الدعوة کا ہے جس کا ملک کے طول و عرض میں ایک نمایاں مقام ہے اور جس کی دینی اور فلاحی خدمات کی مثال ملنا مشکل ہے۔

اس کے برعکس عالم کفر نے جماعتہ الدعوة کو ایک دہشت گرد تنظیم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر جماعت اور اس کے منہج کی محبت عوام کے دلوں سے نہ نکال سکے اور میڈیا وار کے ذریعے سے اپنے بھدے عمل کو جاری رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکمران طبقہ عالم کفر کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا اور جماعت الدعوة پر پابندی لگانے کی باتیں کرنے لگا۔ یہ حکمرانوںنے صرف اللہ کے دین کی سربلندی کے عمل کو روکنے کے لیے اورکفار کو خوش کرنے کے لیے کیا تاکہ خیر اور بھلائی کے کاموں کو روکاجاسکے ۔مگر یا د رکھیں امام کائنات محمدۖ اور ان کے اصحاب پر اسی دین فطرت کی وجہ سے پابندیاں لگی اور اس دین کو جتنا دبایا گیا، اس میں اتنی ہی وسعت آئی پابندیوں ، نظربندیاں سے حوصلوں کو پست نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ ان کو تقویت ملتی ہے پاکستان کی عوام نے محبت و مودت کا ثبوت دیتے ہوئے حکام بالا سے سوال کیا کہ کیا جماعت الدعوة کا قصوریہی ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔

کیا ان کا قصور یہ ہے کہ عوامی سطح پر غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے عملاََ میدان میں موجود ہیں ؟ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ عوام میں تعلیمی سرگرمیوںکوزندہ رکھا اور ملک کے طول و عرض میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا؟ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ عوام کی بھوک و پیاس مٹانے کے لیے تھر جیسے علاقوں میں پانی کے سینکڑوں کنوائیں لگوائے ، وہاں جانوروں تک کی پیاس کو اللہ کی تو فیق سے مٹانے میں کردار ادا کیا ؟ جو جماعت انسان تو انسان ، جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھے اور دین کا کام کرئے، اس جماعت پر پابندی سمجھ سے باہر ہے۔ اس بات کو ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ بے دین بے مذہب لوگ تب تک کسی مسلمان سے خوش نہیں ہونگے جب تک کوئی ان کے دین کو اختیا نہیں کرلیتا اور مسلمان اس بات پر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے، ہم تنہا نہیں چل سکتے اس لیے ہمیں ان کی باتوں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے حالانکہ کافر کبھی مسلمان سے مطمئن ہوئے نہ ہوسکتے ہیں ۔بس اتنا ہی کہوں گاکہ اللہ کے دین کے کام کو روکنا ناممکن ہے اللہ ہمارے حکمرانوں کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

 Tanveer Ahmad

Tanveer Ahmad

تحریر: تنویر احمد