ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی نے سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانہ میں 2018 میں قتل کیس میں مزید چھ ملزمان پرفرد جرم عائد کی ہے، یہ سب سعودی شہری ہیں۔
نشریاتی ادارے سی این این ترک اور دیگر میڈیا رپورٹوں کے مطابق ترکی کے استغاثہ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی قتل کیس میں پیر کے روز دوسری چارج شیٹ دائر کی ہے، جس میں مزید چھ سعودی شہریوں پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں استنبول میں پہلے سے ہی 20 سعودی شہریوں کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ سی این این ترک کے مطابق جن چھ مزید سعودی شہریوں پر فردجرم عائد کی گئی ہے ان میں سے دو قونصل خانے کے ملازم اور دیگر چار سعودی شہری ہیں۔ ترکی کے استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان چھ افراد کے مقدمات بھی اصل مقدمے کے ساتھ منسلک کردیے جائیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق دوسری فردجرم میں جن چھ افراد کا نام شامل کیا گیا ہے ان میں ایک نائب قونصل اور دوسرے اطاشی ہیں۔
استغاثہ نے ان دونوں کوبہیمانہ قتل کی منصوبہ بندی میں مبینہ طورپر ملوث ہونے کے جرم میں عدالت سے عمر قید کی سزا دینے کی اپیل کی ہے۔
دیگر چار ملزمان پر شواہد کو تلف کرنے یا ان میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان کا یہ جرم ثابت ہوجانے پر انہیں پانچ برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ چھ ملزمان اس وقت ترکی میں موجود نہیں ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں ہی ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔
ترکی کے دفتر استغاثہ نے ان میڈیا رپورٹوں پر فوری طورپر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اسی ماہ سعودی عرب کی ایک عدالت نے خاشقجی کے قتل کیس میں آٹھ افراد کو سات سے 20 برس تک کے قتل کی سزا سنائی تھی۔ اس سے قبل خاشقجی کے اہل خانہ نے قاتلوں کو معاف کردینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ان کی سزائے موت منسوخ کردی گئی تھی۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس اور سعودی حکومت اور بالخصوص ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سخت ناقد 59 سالہ جمال خاشقجی کو دو اکتوبر2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانہ میں قتل کردیا گیا تھا جب وہ وہاں سے اپنی منگیتر ہاتف چنگیز کے ساتھ شادی کے متعلق بعض دستاویزات حاصل کرنے گئے تھے۔ لیکن وہ اس عمارت سے کبھی باہر نہیں آئے اور نہ ہی ان کی باقیات مل سکیں۔
ترک حکام کا الزام ہے کہ خاشقجی کو پندرہ افراد پر مشتمل سعودی اسکواڈ نے مار ڈالا اور ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔
خاشقجی کے قتل کے واقعے نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا تھا۔ بعض یورپی حکومتوں اور سی آئی اے نے اس جرم کے لیے ولی عہد شہزادہ محمد بنسلمان، جنہیں عام طور پر ایم بی ایس کہا جاتا ہے، کو مورد الزام ٹھہرایا تاہم سعودی حکام اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔
جولائی میں شروع کیے گئے ایک الگ مقدمے میں استنبول کی عدالت نے جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دو سابق معاونین کے علاوہ 20 سعودی شہریوں کے خلاف ان کی غیر حاضری میں کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ قصور وار ثابت ہونے پر انہیں عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔