تحریر : مریم چوہدری برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پر کشمیر وہ وادی ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔ آجکل کشمیر کافی بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اورلداخ بھی شامل ہے۔ ریاست کشمیر میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پونچھ،مظفرآباد، جموں کے علاوہ گلگت اور بلتستانکے علاقے بھی شامل ہیں۔گلگت اور بلتستانپر 1848 میں کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے فتح کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ آزاد ریاستیں تھیں۔ پاکستان بنتے وقت یہ علاقے کشمیر میں شامل تھے۔
وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔ اس وقت خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ)، اور چین شمال مشرقی علاقوں (اسکائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتا کم اونچے پہاڑوں پر قابض ہیں۔ کشمیر کی صبح بے نورکے بارے میں کچھ پتہ ہے اور نہ ہی اسے وادی جنت نظیرکی شام غریباں کے بارے میں کچھ خبر ہے۔حسین وادیاں، برف سے ڈھکے پرہیبت جاودانی بلند پہاڑ، معطر موسم، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں،گھنے جنگلات، بہتے دریا، شور مچاتے جھرنے، جھاگ اڑاتی ندیاں، تاریخی و ثقافتی ورثہ، مقدس مزار، منفرد روایات، مختلف انواع کی حیاتیات و نباتات الغرض قدرتی خوب صورتیوں اور مناظر سے مالا مال وادی? کشمیرکے لیے بالکل ٹھیک کہا جاتا ہے کہ ”اگر زمین میں کہیں جنت ہے تو وہ کشمیر ہے۔” مگر افسوس کہ کشمیر کے چنار اڑسٹھ برس سے آگ کی لپیٹ میں ہیں، لیکن ہر طرح کی آزادیوں کی حمایت کرنیوالے نام نہاد جمہوری ممالک اور ادارے اس آگ کو بجھانے کی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا تنازع ہے، جس کے بارے میں اس ادارے میں خود بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے استصواب رائے کی بات کی تھی اور جس کے بارے میں یہ ادارہ متعدد بار قراردادیں منظورکرچکا ہے۔ راقم السطور کشمیر کے اس حصہ کا باشندہ ہے، جس کو اسلاف کی قربانیوں کے سبب آزادی حاصل ہو چکی۔ ہمارے آبائی گھر کے بالکل سامنے وہ علاقہ ہے جسے ہم لوگ مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانتے ہیں۔
Kashmir Issue
حالات کی ستم ظریفی کہ یہ خطہ ہمارے ہی آباء و اجداد کا مسکن ہونے کے باوجود ہمارے لئے اس سرزمین پر قدم رکھنا بھی موت کے وارنٹ کے مترادف تھا۔ ہمارے دادا مرحوم مولانا عزیز الرحمن آزادی کے وقت وادی نیلم کے واحد ہائی سکول، ہائی سکول ٹیٹوال کے صدرمعلم تھے۔ مرحوم کی دو شادیاں تھیں، ایک بیوی لوات (حالیہ ضلع نیلم کا ایک قصبہ) میں مقیم تھی جبکہ دوسری مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں مقیم تھی۔ دادا مرحوم 1948 میں وادی کشمیر کے دو چوٹی کے سیاستدانوں مولانا غلام مصطفے شاہ اور مولانا یوسف مسعودی کے ہمراہ ایک فضائی حادثہ میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ اور انکی اولاد آزاد اورمقبوضہ کشمیر کے درمیان بٹ کر رہ گئی۔ یہاں یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد اپنے خاندان کی تشہیر نہیں بلکہ ان حالات کی تصویر کشی ہے، جو تقسیم کشمیر کی وجہ سے کشمیریوں کو دیکھنے پڑے۔ کشمیر میں سیکڑوں نہیں ہزاروں خاندان ایسے ملیں گے کہ دو سگے بھائی اس خونی لکیر کی وجہ سے کٹ کر رہ گئے جسے عرف عام میں لائن آف کنٹرول کہتے ہیں۔
ہمارے اکلوتے چچا حبیب الرحمن جو بعد میں پیر حبیب الرحمن یا حب پیر کے نام سے مشہور ہوئے، مقبوضہ کشمیر میں اپنے عزیز و اقارب سے دور یتیمی کی مشقتیں برداشت کر کے جوان ہوئے، جبکہ والد محترم نے خونی لکیر کے اس طرف جوانی کی منزلیں طے کیں اس حالت میں کہ دونوں میں ملاقات کا رستہ کبھی نہ بن پایا۔ 1992 میں چچا مرحوم نے شہادت پائی، اس حالت میں کہ ان کے دو کمسن بیٹے بالترتیب آٹھویں اور چوتھی جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ بڑے بھائی کا دل کتنا تڑپا ہوگا کہ چھوٹے بھائی کی یتیم اولاد کے سر پر دست شفقت رکھا جائے، لیکن لیکن خونی لکیر کے اس پار رابطہ تقریبا ناممکن ہو چکا تھا۔ نوے کی دہائی سے قبل ٹیلیفونک یا خط و کتابت کے ذریعے رابطہ ممکن تھا جس کو تحریک آزادی کے عروج کے سبب بند کردیا گیا۔
Kashmir
اس پار سے آنے والے مجاہدین ہی ان کی خیریت کی اطلاع پانے کا واحد ذریعہ تھے۔ حالات تبدیل ہوئے اور ایک ایسے شخص کے ہاتھوں جس سے پاکستان کا ہر شخص نالا ں ہے، یعنی جنرل مشرف کی کاوشوں کے نتیجے میں یہ ممکن ہوا کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کے رہنے والے ایک دوسرے سے مل سکیں۔ تب سے ہمارا باہمی رابطہ بحال ہو سکا۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنے چچازاد بھائیوں سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ جیسا کہ پس منظر سے واضح ہے اس سفر کی نوعیت نجی تھی، اور ایک خاندان کے افراد کا ری یونین تھا، اس لئے زیادہ تر مصروفیات بھی ذاتی نوعیت کی رہیں اور ہم نے سیر و سیاحت سے زیادہ اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔
تاہم اس سفر کے دوران تحریک آزادی کی صورتحال اور لائن آف کنٹرول کے اس پار کے افراد کے جذبات و احساسات کے مطالعہ ملا۔ یہ وہ مشاہدات ہیں جن میں ہر پاکستانی دلچسپی رکھتا ہے، اس لئے ان مشاہدات کو ریکارڈ پر لانا چاہتی ہوں تاکہ پاکستانی عوام یہ جان سکیں کہ کشمیری ان کے اور پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور خود کن حالات سے دوچار ہیں۔ یہاں میں وادی کشمیر کے حسن و جمال کے تذکرہ کے بجائے اس حسین وادی کے باسیوں کے حالات و واقعات سے پاکستانی عوام کو آگاہ کرنا چاہتی ہوں۔