پشاور (جیوڈیسک) پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں حکام نے اتوار کی سہ پہر کرفیو ختم کرتے ہوئے پاک افغان شاہراہ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا۔
ہفتہ کو دیر گئے جمرود کے علاقے میں نامعلوم حملہ آوروں نے خاصہ دار فورس کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں ایک خاصہ دار اہلکار ہلاک اور ایف سی کے تین جوان زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد حکام نے یہاں کرفیو نافذ کر کے تلاش کی سرگرمی شروع کر دی جس میں بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد کرنے کے علاوہ متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔
کرفیو کی وجہ سے افغانستان کو جانے والی مرکزی شاہراہ کو بھی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم زمینی گزرگاہ پر واقع شاہراہ رواں سال متعدد بار مختلف واقعات کے باعث بندش کا شکار رہی ہے جس کی وجہ سے سرحد کے دونوں جانب بسنے والوں اور تاجر برادری کی طرف سے شدید تحفظات اور تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔
مقامی قبائلیوں کا کہنا ہے کہ شاہراہ کی ایک دن کی بندش سے جہاں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں وہیں ان کے معمولات زندگی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
جمرود سے تعلق رکھنے والے منظور آفریدی نے کہا کہ آئے روز سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور سڑک کی بندش سے مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے جن کے تدارک کے لیے حکام کو مناسب اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
“ٹارگٹڈ آپریشن ہونا چاہیے ہر روز کرفیو، بازار بند، سڑک بند تو اس میں عام لوگوں کا نقصان ہوتا ہے، ٹارگٹڈ آپریشن کریں اور لوگوں کو پریشان نہ کریں۔”
قبائلی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخریبی کارروائی کے بعد ممکنہ خطرہ سے نمٹنے اور حفاظتی اقدام کے طور پر سکیورٹی فورسز کرفیو لگا کر کارروائی کرتی ہیں اور اس میں لوگوں کا تحفظ ہی پیش نظر ہوتا ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کے علاوہ جرائم پیشہ عناصر نے بھی اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں جن کے خلاف حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز نے بھرپور کارروائی کر کے انھیں یہاں سے مار بھگایا۔
فوجی آپریشن کے باعث ہزاروں خاندانوں کو یہاں سے نقل مکانی بھی کرنا پڑی تھی جن کی مرحلہ وار واپسی بھی شروع ہو چکی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ ہی سات سال کی بندش کے بعد حکام نے دو اہم سڑکوں کو عام آمدو رفت کے لیے بحال کیا تھا جب کہ باڑہ کے ڈگری کالج میں بھی تقریباً سات سال کے بعد تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق شروع ہوئیں۔