تحریر : سعید احمد روزنامہ خبریں پہلا بین الصوبائی قومی اخبار ہے جس نے سرائیکی وسیب کے مسائل کو اپنے صفحات پر نہ صرف جگہ دی بلکہ چیف ایڈیٹر کے غیر جانبدارنہ رویہ نے ہر فورم پر الگ صوبہ کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کیا ۔ مملکت پاکستان کے طول و عرض میں سرائیکی صوبہ کے حوالے سے بحث بڑے دلچسب موڑ میں داخل ہو چکی ہے اس بحث سے مقامی حیران ہیں کہ کیسے کیسے لوگ سرائیکی وسیب میں رہنے کے باوجود سرائیکی صوبہ کی مخالفت کر رہے ہیں اور مخالفین اسکو آزادی اظہار رائے کا نام دیتے ہوئے اپنے خیالات کا کھل کر ناصرف اظہار کر رہے ہیں بلکہ اسکو اپنا بنیادی حق قرار دیتے ہیں ۔مورخہ بائیس مارچ کو ایک صاحب نے کالم میں جمشید دستی کا دفاع کرتے ہوئے جمشید دستی کی طرف سے ہی سرائیکی قوم پرستوں پر تنقید کی ہیں ۔ جناب عزت مآب حمید اصغر شاہین صاحب کیلئے گستاخانہ لب و لہجہ کا استعمال کیا جو انھیں نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ حمید اصغر شاہین صاحب حقائق پر مبنی باتیں کرتے ہیں حمید اصغر شاہین نے اپنے کالم میں جمشید دستی کے دوغلے پن کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی منافقانہ سیاست کو اجاگر کیا جسکے جواب میں اُن صاحب نے جمشید دستی کا دفاع کرتے ہوئے کالم لکھ ڈالا۔
جناب گزارش اتنی ہے کالم ضرور لکھوائیں لیکن حقائق کو مسخ نہ کریں حقائق کو چھپانا پاکستانی کلچر کا حصہ بنا دیا گیا ہے حقائق چھپا کر لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے جب سے ہمارے خطے میں مہاجر/ پنجاپی آیا ہے مسلسل جھوٹ کے سہارے قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے جھوٹ کو ہی پھیلایا جا رہا ہے سچ کو چھپایا جاتا ہے جھوٹ پس پردہ حقائق کچھ اور ہوتے ہیں جنھیں ہمیں نطر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ قوم کو بھی سچ بتائیں تاکہ لوگ حقائق جان سکیں کہ جمشید دستی کیا ڈبل گیم کھیل رہا ہے ۔ دو ہزار تیرا کے عام انتخابات میں جمشید دستی نے دو سٹیں جیتی اور قومی اسمبلی میں پہنچا ، پارلیمانی انتخاب میں مسلم لیگ نون کو اپنا پارلیمانی ووٹ دے کر منافقانہ کردار ادا کیا جاوید ہاشمی اور جمشید دستی میں میر جعفر کا جانشین بننے کی پوری صلاحیت ہے جسکا یہ دونوں حضرات پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں حالانکہ سرائیکی وسیب میں جمشید دستی نے سرائیکی صوبہ کی حمایت اور تخت لہور کے خلاف تقریریں کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا جمشید دستی کی تقریریں اور اسکا فیس بک اکاؤنٹ اس بات کا گواہ ہے جسکی ویڈیوز یوٹیوب پر بھی موجود ہیں یوں کہنا چاہیے کہ جمشید دستی پنجاپی نفرت کا ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوا ہے۔
سرائیکی وسیب کی عوام نے تخت لہور کو مسترد کرتے ہوئے جمشید دستی کو کامیاب کرایا جسکا صلہ جمشید دستی نے سرائیکی وسیب کو یہ دیا کہ اسمبلی میں پہنچتے ہی تخت لہور کی حمایت یافتہ جماعت کو سرائیکی وسیب کا پارلیمانی ووٹ کاسٹ کیا اور سرائیکی وسیب پر نمک پاشی کے ساتھ ساتھ یہاں کی محرومیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نواز شریف کی جھولی میں جا بیٹھا ۔ کیا سرائیکی وسیب نے جمشید دستی کو ووٹ اس لے کاسٹ کیئے تھے وہ تخت لہور کی جھولی میں جا بیٹھے یا پھر وسیب کا مقدمہ تخت لہور کے خلاف لڑے ؟ پارلیمانی ووٹ نواز شریف کو دینے سے رد عمل کے طور پر ضمنی انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ ہم سب دیکھ چکے ہیں۔ رد عمل کے طور پر سرائیکیوں نے یہ کام کیا کہ جمشید دستی اپنی جیتی ہوئی سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ یہ وہ حقائق ہیں جو جھٹلائے نہیں جا سکتے۔ جہاں تک جاوید ہاشمی کی بات ہے جاوید ہاشمی تعصبانہ حد تک نسل پرست شخص ہے جاوید ہاشمی جیسا نسل پرست شخص شاید ہی دنیا میں ہو صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اپنا تعلق عربوں سے جوڑے بیٹھا ہے ہماری دھرتی پر کھاتے ہیں ہماری دھرتی کے خلاف بھونکتے ہیں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا ؟ جس دھرتی کا کھاتے ہیں اس کے ساتھ تو وفاداری کریں کم از کم میر جعفر اور میر صادق کا کردار تو ادا نہ کریں ۔ لیکن ایسا ہو گا نہیں کیونکہ یہ لوگ اسکے ساتھ ہوتے ہیں جسکے پاس اقتدار ہوتا ہے یہ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کی مالش کو اپنا پدری حق سمجھتے ہیں۔
سرائیکی قوم پرستوں پر تنقید کرنے بجائے ہمیں ان حقائق کا جائزہ لینا چاہیے جس سے سرائیکی قوم پرست نبردازما ہیں سرائیکی قوم پرست جس قسم کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور وسائل نہ ھونے باجود سیاسی قوت بن کر ابھر رہے ہیں یہ خوش آئیندہ بات ہے سرائیکی قوم پرست سرائیکی خطہ کا اہم سیاسی / اسٹریٹجک اسٹیک ہولڈر ہیں سرائیکی قوم پرستوں کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ہمارا خطہ جاگیرداروں اور گدی نشینوں پر مشتمل ہے یہ گدی نشین اور جاگیردار بار بار منتخب ہو کر سیاست کی گیم کا حصہ بن رہے ہیں ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی ان ھی جاگیرداروں کو سپورٹ کرتی رہی ہے ۔ بااثر طبقہ سرائیکی قوم پرستوں کو سیاست میں نہیں دیکھنا چاہتا اسی وجہ سے سرائیکی قوم پرست تنقید کی زد میں رہتے ہیں اور مسلسل عذاب میں رہتے ہیں کرائے کے کالم نگاروں کے ذریعے سرائیکی قوم پرستوں کے خلاف لکھوایا جا رہا ہے ۔ کوئی غداری کے فتویٰ بانٹ رہا ہے کوئی سرائیکی قوم پرستوں پر بھارت نواز ہونے کے الزامات لگا رہا ہے ۔ الزمات لگانے والے اردو / پنجاپی کانفرینسز جو بھارت میں ہوتی ہیں ان پر لب کشائی نہیں کرتے، پنجابی حکمران سکھوں کے ساتھ تصویریں بنا کر بھارت نوازی کا ثبوت دیتے ہیں لیکن مالشیوں کو یہ دیکھائی نہیں دیتا۔
مالشیوں کو سرائیکی قوم پرستوں ہر جھوٹے الزام لگانے علاوہ نا کچھ نطر نہیں آتا ہے نا ھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، سرائیکی قوم پرستوں پر جھوٹے الزام لگانے والوں کو الطاف حسین کی غداری نظر نہیں آتی نواز شریف اور محمود اچکزائی کی ہرزہ سرائی بھی نظر نہیں آتی ۔ جھوٹے الزام لگانے والوں کو ایک بات کہونگا ۔ بھائی جان ! تم جھوٹے الزام لگانے والوں ہم اپنی سرزمین کے خلاف سازش نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اپنی سرزمین پر آباد ہیں ہم مقامی ہیں ہم تل وطنی ہیں بھارت ، ایران ، شام ، افغانستان ، اترپردیش ، امریتسر سے آنے والوں تم لوگ ہماری سرزمین کے خلاف سازش کرتے ہو کر سکتے ہو کیونکہ تم لوگوں کے دل و دماغ میں ابھی بھی تک بھارت بسا ہوا ہے کیونکہ تمھارے اجداد کی قبریں بھارت میں ہیں جیسے جاوید ہاشمی کے دماغ میں عرب گھسے ہوئے ہیں اور وہ اپنا نسلی تعلق فخریہ طور پر عربوں سے جوڑتا ہے حالانکہ کھاتا ہماری دھرتی کا ہے وفاداری اقتدار پرست طبقے سے کرتا ہے ” مسٹر جاوید ہاشمی لوگ یہ نعرہ بھی دے سکتے ہیں جاوید ہاشمی کون ایک مالشی مالشی ” جہاں تک ہم تل وطنیوں کا تعلق ہے سنو ! مالشیوں ہم تل وطنی بھارت سے نہیں آئے بلکہ ہمارے تل وطنی بھارت جا کر مہاجر بنے ہوئے ہیں جیسے آپ یہاں پاکستان میں مہاجر اور آبادکار بنے ہوئے ہیں۔
سرائیکی صوبہ کے حصول میں اصل رکاوٹ دو طبقات ہیں ایک وہ جسکو سرائیکی وسیب میں زمینیں بانٹی گئی ہیں یہ منافق طبقہ ہے دوسرا طبقہ جاگیرداروں پر مشتمل ہے۔ جاگیردار سیاست میں سرائیکی قوم پرستوں کو برداشت نہیں کرتے۔ سرائیکی قوم پرستوں کو ان دونوں محازوں پر نبردآزما ہونا پڑے گا ۔ سرائیکی قوم پرست اس صورت کامیاب ہو سکتے ہیں جب یہ سرائیکی قوم پرست جمشید دستی ، شاہ محمود قریشی ، یوسف رضا گیلانی ، جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کو اپنے سیاسی جلسوں / ثقافتی ایونٹ میں مدوع نہ کریں بلکہ ایسے لوگوں کو مدوح کریں جو واقعی سرائیکی قوم پرستی کے ہمدرد ہوں ایسے سرائیکی قوم پرست بھی سرائیکی قوم پرستی کے دشمن ثابت ہو رہے ہیں جو جسمانی طور پر تو سرائیکی قومتی تحریک کے ساتھ منسلک ہیں لیکن ذہنی طور پر پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون ، تحریک انصاف کے ساتھ منسلک ہیں جب تک سرائیکی قوم پرست ایسے لوگوں سے نجات حاصل نہیں کرتے تب تک سرائیکی خطہ میں سرائیکی قوم پرستوں کا سیاسی اسٹیک ہولڈر تسلیم کیا جانا مشکل دیکھائی دیتا ہے ۔ کیونکہ سرائیکی قوم پرست خطہ کا اہم سیاسی اسٹیکک ہولڈر ہیں اس وجہ سے سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو نکالیں جو ذہنی طور پر پیپلز پارٹی ، نون لیگ ، تحریک انصاف کے ساتھ واستہ ہیں یہ سرائیکی قوم پرستی میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
سرائیکی صوبہ کا حصول اسی صورت میں ممکن ہو گا جب ملکی اسٹیبلشمنٹ کو سرائیکیوں کی محرومیوں کا احساس ہو گا۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ کو اس پر ھوم ورک کرنا چاہیے۔ ۔سرائیکی قوم پرست جسطرح کی جدوجہد کر رہے ہیں یہ جدوجہد سنہری حروف میں لکھی جا رہی ہے ۔ ظلم دیکھیں ؟ تل وطنیوں کو غدار اور بھارت ، افغانستان ، شام ایران سے آنے والے ہماری سرزمین کے وفادار ہیں ؟ ابے ! چل مالشی نکل پتلی گلی سے ۔ حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو ۔سرائیکی صوبہ کا حصول اسان بنتا جا رہا ہے ، پنجاب کی تقسیم سے ہی پاکستان کا استحکام وابستہ ہے۔ پنجاب ٹوٹے پاکستان نہ توٹے کیونکہ پنجاب کے ٹوٹنے سے ہی پاکستان کو دائمی استحکام ملے گا پنجاب کی تقسیم سے تل وطنیوں کی محرومیوں کا خاتمہ ہو گا ۔سرائیکی قوم پرست ، قوم پرستی کی قیادت یوسف رضا گیلانی ، شاہ محمود قریشی ، عباسی ، جاوید ہاشمی کو دینے کا خواب نہ دیکھیں کیونکہ اس خواب کا انجام عبرت ناک ہو گا ۔ اسکے برعکس سرائیکی قوم پرست ، قوم پرستی کی قیادت کسی تل وطنی کوں دینے کا سوچیں اور اس پر عمل کریں آسانیاں پیدا ہونگی اور سرائیکی قوم پرست موجودہ بحرانی کیفیت سے احسن طریقے سے نکل آئے گئے۔