تحریر : انجم صحرائی میڈیا ذرائع کے مطا بق چیف جسٹس ہائیکورٹ لا ہور نے رکن اسمبلی جمشید دستی پر جیل میں مبینہ غیر انسانی تشدد کی تحقیقات کا حکم دیتے ہو ئے سیشن جج سر گو دھا سمیت متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کر لی ہے یاد رہے کہ پانی چوری کیس میں گرفتار رکن قو می اسمبلی جمشید دستی نے دہشت گردی کی عدالت کے موقع پر میڈ یا سے گفرگو کرتے ہو ئے الزام لگا یا کہ وہ چھ دن سے بھو کے ہیں جیل میں ان کے کمرے میں چو ہے ، سانپ اور بچھو چھو ڑے جا رہے ہیں اور ان پر ناروا تشدد کیا جا رہا ہے اور انہیں گھسیٹ گھسیٹ کر مارا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ ان کی بہن کینسر کی مریضہ ہے ان پر رحم کیا جائے ۔ سو شل میڈ یا پر وائرل ہو نے والی وڈ یو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قید یوں کی جیل گاڑی میںبند جمشید دستی میڈ یا سے یہ گفتگو تقریبا روتے ہو ئے کر رہے ہیں ۔
ہمیں بھی جمشید دستی کی یہ حالت دیکھ کر اور بقول ان کے سرکار کی طرف سے ان پر کئے جا نے والے مبینہ غیر انسانی تشدد کی کہانی سن کر بہت افسوس ہوا ،جمشید دستی پر درج مقد مات بارے فیصلہ کرنا تو عدالتوں کا کام ہے اور ہمیں اپنی عدا لتوں پر مکمل اعتماد ہو نا چا ہئے ۔ لیکن کوئی بھی انسانی حقو ق سے آ شنا شخص حکومتی اداروں کی طرف سے کئے گئے غیر قا نو نی ، غیر آ ئینی اور غیر اخلا قی جیل میں تشدد جیسے ایسے غیر قانو نی اور غیر انسا نی اقدامات کی حمایت نہیں کر سکتا ۔آ نر یبل چیف جسٹس لا ہور ہا ئیکورٹ کی جانب سے جمشید دستی پر ہو نے والے مبینہ تشدد بارے رپورٹ طلب کر کے بر وقت اقدام کیا گیا ہے۔
جمشید دستی سے میری کبھی بالمشا فہ ملا قات نہیں ہو ئی نہ اس وقت جب وہ ہفت روزہ اخبار شہوانی کے کرتا دھرتا تھے اور نہ اس وقت جب وہ ایک لیبر لیڈر کے طور پر سامنے آ ئے اور نہ ہی ان دنوں میں جب وہ رکن اسمبلی بنے جب انہوں نے عوامی راج پارٹی بنائی تب میں صبح پا کستان کے لئے ان کے انٹر ویو کے حصول کے لئے ملا قات کاخواہشمند تھا کئی بار ضلع لیہ میں پارٹی کے ذمہ داران صابر عطا ء ، جمیل ڈو نہ اور دیگر دوستوں سے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا میں ان سے مل کر ان کے فلسفہ انقلاب سے آ گہی چا ہتا تھا لیکن ملاقا ت میسر نہ آ سکی۔
یہ ایک سچا ئی ہے کہ جمشید دستی میرے وسیب کا ایک قابل فخر فر زند ہے ا س سے سیاسی فکری ا و ر نظریاتی اختلافات کئے جا سکتے ہیں لیکن اس کی محنت اور جدو جہد سے انکار ممکن نہیں جمشیدستی صحافی ہو یا لیبر لیڈر یا سیاسی کارکن اس نے اپنے عزم حو صلہ اور مسلسل جدو جہد سے اپنے آپ کو منوایا ہے خاص طور پر اس کے اپنے حلقہ کے عوام کی خدمت اور تعلق کے بے لوث انداز نے بڑے بڑے سیاسی جفا وریوں کو مات دی ہے۔
رکن قو می اسمبلی جمشید دستی عوامی راج پارٹی کا با نی سربراہ ہے عوامی راج پارٹی عام آ دمی کے اختیار اور انقلاب کی بات کرتی ہے لیکن کیسے ؟ میں اسے سمجھ نہیں پا یا مجھے جمشید دستی کی ایک تقریر سننے کا موقع ملا گھوڑا چوک لیہ میں کی جانے والی اس تقریر میں عام آ دمی کے لئے انقلاب اور تبد یلی کے لئے کوئی میسج نہیں تھا لیکن وہ شریف خاندان ، پو لیس اور ضلعی انتظا میہ کے کرتا دھرتائوں پر وہ گرجے اور برسے کہ بے غیرت اور لعنت جیسے لفظوں کی برسات نے عام آ دمی کو تالیاں بجانے پر مجبور کر دیا اور میں سو چتا رہا کہ کیا عوام کو انقلاب اور تبدیلی کے لئے ایسے تیار کیا جاتا ہے ؟ لیکن یہ انداز گفتگو صرف جمشید دستی کا فن تقریر ہی نہیں آ ج کل تو سبھی سیاسی دانشور انہی خطوط پر قوم کی نظریاتی تر بیت کر نے میں مصروف ہیں ۔اور شا ئد اسی لئے قوم انقلاب اور تبدیلی کا سفر کھو ٹا کر رہی ہے۔
جمشید دستی کو جیل گاڑی میں بیٹھے روتے اور رحم کی اپیل کرتے دیکھ کر مجھے دکھ سے زیادہ افسوس ہوا ، دکھ اس لئے کہ حکو متی اداروں کو ایسا نہیں کر نا چا ہئے تھا اور افسوس اس لئے کہ ایک پارٹی سر براہ ، سیاسی لیڈر اور ہزاروں ووٹرز کے اعتماد کے مظہر رکن اسمبلی کو ایسے رونا نہیں چا ہئے تھا اور ایسے رحم کی بھیک نہیں مانگنا چا ہئے تھی کم از کم سیاسی کارکن تو ایسے نہیں کرتے اور نظر یاتی سیاسی کارکن تو با لکل ایسا نہیں کر تے ۔ ضیاء کی آ مریت کے زمانہ میں پی پی پی کے کامریڈ کار کنوں کے ساتھ شا ہی قلعہ کے اذیت خانوں میں جو ہوا ، تحریک نظام مصطفی کے دوران سیاسی کار کنوں کو جو قیدو بند کی صعو بتیں سہنا پڑیں ، مولانا ابو الاعلی مودودی ، مولانا عبد الستار نیازی کی سزائے موت اور کال کوٹھریوں کی داستا نیں ، ذوالفقار علی بھٹو کا عدا لتی قتل ، مو لانا محمد طفیل کے ساتھ ظلم و بر بریت ، شیخ رشید کی نو عمری کی اسیری ، اے آ ر ڈی اور پی ڈی اے کے سیاسی کار کنوں کے عزم و استقلال کی داستا نیں حتی کہ نعرے لگانے والے عام سیاسی کارکنوں ، انقلاب کی بات کرنے والے حبیب جالب جیسے عوامی لکھا ریوں اور شا عروں کو بھی جیل یاترا کر نے ، اذیتیں سہنے اور ریا ستی جبر کا مقا بلہ کر نے کا اعزاز حا صل ہوا لیکن وہ ہمیں کبھی روتے نظر نہیں آ ئے اور ابھی گذرے کل کی بات ہے ماڈل ٹائون میں چودہ شہادتیں ہو ئیں شیخ الاسلام علامہ طا ہر القادری اور منہاج القرآن والوں نے چودہ لاشے اٹھا ئے سینکڑوں کا رکن زخمی ہو ئے مگر اس بے رحمانہ ریاستی جبر پر کسی کو روتے دیکھا اور نہ ہی رحم کی بھیک مانگتے دیکھا ۔چونکہ
جس سج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آ نی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں