تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ملائکہ محو حیرت تھے اور بوڑھا آسمان پچھلے کئی دنوں سے بلا پلک جھپکے تاریخ انسانی کے سب سے بڑے اور انمول ترین عاشق ِ رسول ۖ کی ہمت اور استقامت کو دیکھ رہا تھا ۔ مکہ کی زمین جو موسم گرما میں آگ برساتی دھوپ میں تانبے کی طرح گرم ہو جاتی تھی ۔ مکہ کے کافر امیہ بن خلف کو جب یہ پتہ چلا کہ اُس کے غلام نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا اپنے غلام کو بلا کر کہا تم نے مقدس لات و عزّی کو چھوڑ کر کوئی اور معبود ڈھونڈ لیا ہے تو غلام زادے نے بے دھڑک جواب دیا کہ میں محمد ۖ اور اُس کے خدا پرایمان لے آیا ہوں غلام کے آقا امیہ کے لیے یہ گستاخی عظیم تھی کہ اُس کا غلام تین سو ساٹھ خدائوں کو چھوڑ کر صرف ایک خدا کو مانے’ ظالم آقا نے رعونت سے کہا تم باز آجائو ورنہ ذلت کی موت مارے جائو گے لیکن آفرین ہے غلام زادے پر جو نشہ توحید میں ڈوب چکا تھا بولا میرے جسم پر تمھارا زور چل سکتا ہے جبکہ میں اپنا دل و جان محمد ۖ کے خدا کے پاس رہن رکھ چکا ہوں۔
غلام کے جواب سے کافر امیہ بن خلف غصے سے پاگل ہو گیا کہ ایک غلام زادے کی اتنی جرات وہ غصے سے بولا اب دیکھو اپنی بے دینی کا مزا میں دیکھتا ہوں میرے ظلم و ستم سے تمھارا محمد ۖ اور اُس کا خدا تمھیں کس طرح بچاتے ہیں۔ اِس کے بعد غلام پر ظلم و ستم کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا غلام کے ہاتھ پائوں رسیوں سے باندھ دئیے گئے رسیاں اتنی سختی سے بندھی ہوئی تھیں کہ زخموں کے اندر دھنس گئیں تھیں سارا دن غلام پر کوڑے بر سائے جاتے گلے میں رسی ڈال کر نوکیلے کنکروں اور پتھروں پر جلتی ہوئی دوپہر میں گھسیٹا جاتا لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں لٹا دیا جاتا جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر بھاری پتھر غلام کے سینے پر رکھ دیا جاتا تا کہ وہ جنبش بھی نہ کر سکے پھر ظالم آقا کہتا محمد ۖ کی پیروی سے باز آجا ورنہ اِسی طرح پڑا رہے گا لیکن شہدائے حق اور رسول ِ عربی ۖ کا پروانہ زبان سے احد احد نکالتا ظالم آقا غضب ناک ہو کر ذودو کوب کرنا شروع کر دیتا ۔ صحابی حضرت عمرو بن العاس فرماتے ہیں کہ میں نے بلال کو اس حالت میں دیکھا کہ امیہ نے شدید تپتی ہوئی زمین پر لٹا رکھا ہے کہ اگر اُس گرم زمین پر گوشت کا ٹکڑا بھی رکھ دیا جا تا تو وہ بھی گل جاتا۔
غلام کے انکار پر امیہ نے مکہ کے اوباش لونڈوں کے حوالے غلام کو کر دیا جنہوں نے غلام کے گلے میں رسی باندھ دی کپڑے اتار دیے ظالم لونڈے بلال کو مکہ کی گرم ریت اور گھاٹیوں میں گھسیٹتے پھرتے کبھی اوندھے منہ لٹا کر اوپر گرم نوکیلے پتھروں کا ڈھیر لگا دیتے جب لونڈے غلام کو اِدھر اُدھر گھسیٹتے تو غلام بار بار دہراتا میں لات و عزی ہبل اور دوسرے تمام بتوں کا انکار کر تا ہوں اور احد احد پکارتے جاتے یہ ظلم و ستم پچھلے کئی روز سے جاری تھا غلام کے جسم کا کائی حصہ ایسا نہ تھا جو شدید زخمی نہ ہو ۔ مسلمان آتے جاتے غلام کی حالت دیکھتے تو بہت دکھی اور رنجیدہ ہوتے ۔ سیدنا حضرت ابو بکر کا گھر بھی اِسی محلے میں تھا وہ آتے جاتے روزانہ سوچتے کس طرح اِس عاشق ِ رسول ۖ کو ظالم کے پنجہ سے نجات دلائی جائے ایک دن حضرت ابو بکر سے غلام کی حالت دیکھی نہ گئی تو وہ ظالم امیہ کے گھر تشریف لے گئے اور امیہ سے کہا کہ ایک غلام پر اتنا ظلم کر نا اچھا نہیں حضرت ابو بکر کی گفتگو سے تنگ آکر امیہ بو لا تم اس غلام کے اتنے ہمدرد ہو تو ا،س کو خرید کیوں نہیں لیتے صدیق اکبر جھٹ بولے بولو کیا لو گے تو امیہ بولا تم اپنا غلام فسطاس رومی مجھے دو اِس کو لے جائو فسطاس رومی بہت با صلاحیت غلام تھا اہلِ مکہ کے نزدیک اُسی کی بہت زیادہ قیمت تھی امیہ کے خیال میں حضرت ابو بکر کبھی بھی اپنا غلام نہیں دیں گے۔
Muhammad PBUH
لیکن حضرت ابو بکر فوراً بو لے مجھے منظور ہے امیہ حیرت اور ڈھٹائی سے بولا فسطاس کے ساتھ چالیس اوقیہ چاندی بھی لوں گا امیہ نے اپنی طرف سے بہت چالا کی کا سودا کیا جب صدیق اکبر غلام کو لے جانے لگے توکہنے لگا اے ابن ابی قحافہ اگر تمھاری جگہ میں ہو تا تو اِس غلام کو درم کے چھٹے حصے کے عوض بھی نہ خریدتا صدیق اکبر فرمانے لگے اِس غلام کی قدر و قیمت سے تم واقف نہیں میرے نزدیک ملک یمن کی بادشاہی بھی اِس کے سامنے ہیچ ہے غلام اُس وقت بھی بھاری گرم پتھروں کے نیچے دبا ہوا تھا حضرت ابوبکر کے ساتھ حضرت زید بن حارث بھی تھے انہوں نے غلام کے کان میں کہا اب تم آزاد ہو غلام کی آنکھیں خون اور آنسو ئوں سے دھندلائی ہوئی تھیں زخموں اور کمزوری کے سبب جواب دینے کی سکت بھی نہ تھی حضرت ابو بکر اور زید بن حارث نے بازوئوں سے پکڑ کر اُنہیں نیم مردہ حالت میں چلاتے اورگھسیٹتے ہوئے لے گئے زخمی غلام حضرت ابو بکر کے دولت کدے پر پانچ دن بے ہوش رہا کبھی ہوش میں آجاتا اِس دوران علاج بھی ہوتا رہا چھٹے روز غلام چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو حضرت ابو بکر نے فرمایا سرورِ کونین ۖ متواتر تین دن تیرے کمرے میں جاکر دعائے صحت فرماتے رہے ہیں جب تک تمھارا بخار نہیں اترا مسلسل دعائیں کرتے رہے ہیں۔
ساتویں دن صحت بہتر ہوئی تو حضرت ابو بکر غلام کو بارگا ہِ محبوب کبریا ۖ میں لے گئے رحمتِ مجسم نے جب اپنے مُحب کو دیکھا تو آنکھیں بھی آئیں رحمت ِ دو عالم ۖ اپنی جگہ سے اُٹھے اور غلام کو گلے سے لگا لیا اور فرمایا جب تک دنیا قائم رہے گی یہ بات یا درکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں ظلم و اذیت برداشت کرنے والے پہلے شخص تم ہو ۔ شہنشاہِ دو جہاں ۖ کے آنسو مبارک غلام کے چہرے پر گِر رہے تھے اور غلام یوں محسوس کر رہا تھا کہ وہ جنت الفردوس میں ہے پھر ساقی کوثر نے غلام کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ چٹائی پر بٹھا لیا۔
غلام سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آقا دو جہاں ۖ ایسی محبت اور شفقت کریں گے اور پھر یہیں سے سرورِ دو عالم ۖ کی غلامی کا دور شروع ہو ا ۔ مشرکین کے پنجہ ستم سے رہائی پانے کے بعد اِس غلام نے اپنی زندگی رحمتِ دو جہاں کی خدمت کے لیے وقف کر دی دن رات’ دکھ سکھ’ سفر ‘و عظ’ تبلیغ کی مجالس ہوں یا میدانِ جنگ یہ غلام ہر وقت نبی کریم ۖ کی خدمت میں حاضر رہتا ۔ عشقِ رسول ۖ میں فنا کے اُس مقام پر تھا کہ ہر وقت خدمت میں حاضری کو سعادت سمجھتا نبی کریم ۖ کے ہر حکم کو پورا کرنے کے لیے اپنی جان تک لڑا دیتا۔
نبی کریم ۖ نے اپنے بیشتر خانگی امور بھی اِس کے سپرد کر دئیے تھے وہ حضور ۖ کے موذن بھی تھے اور ایک عابد شبِ زندہ دار بھی تھے فکر آخرت سے ہر وقت لرزہ بر اندام رہنا ہی زندگی تھی ایک مرتبہ جب یہ غلام بیمار ہو گیا تو جب بھی رسول کریم ۖ کو اِس کی بیماری کا پتہ تو فخرِ دو عالم ، شافع محشر وجہ تخلیقِ کائنات رسول کریم ۖ آپ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ۔ جب غلام کو بوئے مصطفی ۖ پہنچی تو حیرت اور خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا دامنِ رسول ۖ نظر آیا تو شدت عشقِ رسول ۖ میں خود پر قابو نہ رہا گھسیٹتے ہوئے آئے اور سرورِ کونین ۖ کے قدم مبارک پر اپنا سر رکھ دیا اور محبت سے بوسے لینے لگے نبی کریم ۖ نے اپنے عاشق کے سر و چشم کو بوسہ دیا اور فرمایا اب کیا حال ہے تو عرض کیا جس کے پاس اچانک رحمتِ دو جہاں ۖ آجائیں تو اُس کی خوشی کا کیا حال ہو گا اب سب دکھ اور درد راحت اور خوشی میں بدل گئے اِس غلام کو بارگاہِ رسالت ۖمیں خاص مقام حاصل تھا اِس بنا پر تمام صحابہ آپ کو محبوب و محترم جانتے تھے۔ حضرت عمر فاروق اِس غلام کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار بلال کو آزاد کرایا۔