جاپان میں پہلے جوہری بم پھینکنے کی 68 ویں برسی

Japan

Japan

ہیروشیما (جیوڈیسک) جاپان میں پہلے جوہری بم کے پھینکنے کی 68 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ ہیروشیما شہر پر پھینکے جانے والے ایٹم بم کے پھٹنے سے ایک لاکھ 40 ہزار افراد لمحوں میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 50 ہزار سے زائد جاپانی ہیروشیما شہر میں قائم امن پارک میں صبح کے وقت جمع ہوئے اور عین بم پھینکے جانے والے وقت پر ہلاک شدگان کی یاد میں خاموشی اختیار کی۔ 1945 میں بم صبح کے سوا 8 بجے پھینکا گیا تھا۔

امن پارک ایٹم بم پھینکے جانے والے مقام کے قریب ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ رواں برس ہیرو شیما میں ایٹم بم گرائے جانے کی برسی 2011 کے زلزلے سے متاثرہ فوکوشیما جوہری پاور پلانٹ کو بحال کرنے کی کوششوں کے وقت آئی ہے۔ ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے جانے کی برسی کے موقع پر جاپانی وزیراعظم شینزو آبے کا کہنا ہے کہ ساری دنیا میں ان کا واحد ملک ہے جس نے دو مرتبہ ایٹمی ہتھیاروں کا سامنا کیا ہے اور آج جاپان کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ دنیا بھر میں جوہری ہتھیار سازی کو مکمل طور پر منجمد کرنے کی اپنی کوششوں کو جاری رکھے۔

ہیروشیما میں ایٹم بم کے حملے سے بچ جانے والوں کو ہیباکوشا کہا جاتا ہے اور ان میں سویلین اور فوجی بھی شامل ہیں۔ یہ سب جوہری طاقت کے ملٹری اور سویلین استعمال کے شدید مخالف ہیں۔ جبکہ ہیروشیما کے میئر کازومی ماتسوئی نے پیس ڈیکلیریشن کی خصوصی تقریر میں جوہری پاور پلانٹوں کو دوبارہ آپریشنل کرنے اور دوسرے ملکوں کو جوہری ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کرنے کے حکومتی فیصلے پر نکتہ چینی کی۔

ماتسوئی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس کے موسم گرما میں بھی مشرقی جاپانی علاقے زلزلے سے تباہی کا شکار ہونے والے جوہری پاور پلانٹ سے ابھی تک متاثر ہیں اور وہاں بحالی کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ ماتسوئی کے مطابق ہیرو شیما کے لوگ جوہری قوت سے متاثر ہونے کے بعد شروع کی جانے والی بحالی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہیرو شیما کے میئر نے حکومت سے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے والی انرجی پالیسی کو متعارف کروانے کا مطالبہ بھی کیا۔

2010 سے قبل امریکا کا کبھی بھی کوئی نمائندہ ہیروشیما یا ناگاساکی کی یادگاری تقریبات میں شریک نہیں ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ صدر اوباما نے 2010 میں اپنا نمائندہ ہیروشیما روانہ کیا تھا۔ گزشتہ برس ہیروشیما میں منعقد کی جانے والی یادگاری تقریب میں 1945 کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کے پوتے کلفٹن ٹرومین ڈینئل بھی شامل تھے۔

ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکنے کا حتمی حکم صدر ٹرومین نے جاری کیا تھا۔ واضع رہے کہ امریکا کی جانب سے ناگاساکی پر 9 اگست کو امریکا نے دوسری مرتبہ ایٹم بم پھینکا تھا۔ ابھی تک کسی بھی امریکی صدر نے اپنی مدت صدارت کے دوران ان جوہری بموں سے متاثرہ دونوں شہروں میں سے کسی ایک کا دورہ نہیں کیا ہے۔