تحریر : سید توقیر زیدی بھارت اور جاپان نے سول جوہری معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ اس معاہدے کے تحت جاپان جوہری توانائی کی پیداوار کیلئے بھارت کو فیول’ سازوسامان اور ٹیکنالوجی فراہم کریگا جبکہ بھارت یہ ٹیکنالوجی صرف پرامن مقصد کیلئے استعمال کریگا۔ جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے جوہری تجربہ کیا تو جاپان یہ معاہدہ منسوخ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین اس معاہدے پر ٹوکیو میں بھارتی وزیراعظم مودی کی اپنے ہم منصب جاپانی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد دستخط ہوئے۔ چین نے بھارت جاپان جوہری معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک علاقائی ریاستوں کے جائز خدشات کا احساس اور احترام کرینگے اور امن استحکام کیلئے زیادہ کام کرینگے۔
دوسری جانب عالمی بنک نے مقبوضہ کشمیر میں دومتنازعہ ڈیموں کشن گنگا اور راتلے کی تعمیر کیخلاف پاکستان کی ثالثی کی درخواست قبول کرلی ہے جس پر بھارت نے عالمی بنک کے ساتھ سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی شق کیخلاف کسی ثالثی کا حصہ نہیں بنے گا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق بھارت سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کررہا تھا جس پر پاکستان نے عالمی بنک کے روبرو بھارت کیخلاف ثالثی عدالت تشکیل دینے کی درخواست دائر کی جسے عالمی بنک نے پاکستان کے مضبوط موقف کے باعث قبول کیا ہے جو پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے۔
بھارت کی جانب سے کشمیر کو متنازعہ بنا کر اسکے غالب حصے پر بزور تسلط جمانے اور خود کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے کا ایک ہی مقصد ہے جو پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کا ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے بھارت کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت کی جانب سے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دینے اور پھر کشمیر کا کیس اقوام متحدہ میں لے جانے کے باوجود وہاں اپنی فوجیں داخل کرکے اس پر جبری قبضہ کرنے کا اسکے سوا کوئی دوسرا مقصد نہیں تھا کہ کشمیر کے راستے سے پاکستان آنیوالے پانی کو اپنے کنٹرول میں لے کر اس پر آبی دہشت گردی کی جائے۔ کبھی اسے فالتو پانی چھوڑ کر ڈبویا جائے اور کبھی پانی روک کر پاکستان کی زرخیز دھرتی کو خشک سالی کا شکار کیا جائے اور وہاں قحط کی صورتحال پیدا کی جائے۔
Kashmir Issue
اسی بدنیتی کے تحت بھارت نے اقوام متحدہ کی جانب سے اسکی درجن بھر قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کو استصواب کا حق ملنے کے باوجود کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کا ڈرامہ رچایا۔ کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم نہ کیا اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا جسے بھارتی تسلط سے آزادی کے خواہش مند کشمیری عوام نے آج تک تسلیم نہیں کیا اور گزشتہ 68 سال سے زائد عرصہ سے بھارتی فوجوں کے جبر و تسلط کا ہر ہتھکنڈہ برداشت کرتے ہوئے اب تک عملاً اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں اور آج کشمیریوں کی تیسری نسل بھی ظالم بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہے اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر بھارتی اٹوٹ انگ والے دعوے کو اقوام عالم کے سامنے طشت ازبام کر رہی ہے۔
تین ماہ قبل کشمیری نوجوان حریت لیڈر برہان مظفروانی کی بھارتی جبر کے نتیجہ میں ہونیوالی شہادت کے ردعمل میں تو کشمیری نوجوانوں نے جدوجہد آزادی سوشل میڈیا کے ذریعے تیز کرکے بھارتی فوجوں اور بھارت کی انتہائ پسند جنونی مودی سرکار کو زچ کردیا ہے جبکہ اب مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام عالم کا دبائو بھی بھارت پر بڑھ رہا ہے جس پر بھارت نے اٹوٹ انگ کی تکرار میں شدت پیدا کردی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بھارتی فوجوں نے گزشتہ تین ماہ سے کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے بھوننے اور پیلٹ فائرنگ کے ذریعے انہیں اندھا اور اپاہج بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ گزشتہ روز بھی بارہمولا میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک لڑکی اور تین نوجوان شہید ہوگئے جبکہ 50 نوجوان زخمی ہوئے۔ اسی طرح بھارتی فوجوں نے کنٹرول لائن پر بھی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور گزشتہ روز بھارتی فوجوں کی جانب سے کیرن سیکٹر’ باپا’ اٹھمقام اور کنڈل شاہی میں سیزفائر لائن اور وادی نیلم میں کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں کی گئیں اور بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کا پاک فوج نے بھرپور جواب دیا مگر پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے بھارتی عزائم اب بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
اس نے کشمیر پر تسلط جمانے کے بعد پاکستان کی جانب آنیوالے دریائوں جہلم اور چناب کے پانی کو روکنے کی سازشوں کا آغاز کیا تو پاکستان نے ان بھارتی سازشوں کیخلاف عالمی بنک سے رجوع کیا جس نے 1962ئ میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے دونوں ممالک میں پانی کا تنازعہ طے کرایا۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر پاکستان کے مفادات کے منافی تھا جس کے تحت تین دریائوں کو مکمل طور پر بھارت کے حوالے کرکے پاکستان کو انکے پانی کے استعمال کے حق سے محروم کردیا گیا جبکہ باقیماندہ تین دریائوں چناب’ جہلم اور سندھ پر پاکستان کو اپنی ضرورت کے مطابق پہلے ڈیمز تعمیر کرنے کا حق دیکر بھارت کو بھی بعدازاں ان پر ڈیم تعمیر کرنے کا حق دے دیا گیا۔ پاکستان نے تو اپنی بے تدبیریوں کے باعث ان دریائوں پر پہلے ڈیم تعمیر کرنے کا حق بھی استعمال نہ کیا جبکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے برعکس ان ڈیموں پر بھی دھڑا دھڑ چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرنا شروع کر دیئے۔ ان میں 850 میگاواٹ کا راتلے ڈیم اور 330 میگاواٹ کا کشن گنگا ڈیم بھی شامل ہے جو دریائے چناب اور دریائے جہلم پر تعمیر کئے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل بھارت بگلیہار ڈیم کی تعمیر مکمل کرچکا ہے جس پر پاکستان اپنا کیس اس لئے ہار گیا تھا کہ اس نے اسکی تعمیر تقریباً مکمل ہونے کے بعد عالمی بنک سے رجوع کیا تھا۔ اب پاکستان کی جانب سے کشن گنگا اور راتلے ڈیم کی تعمیر کیخلاف بروقت عالمی بنک سے رجوع کیا گیا ہے تو عالمی بنک نے پاکستان کی ثالث مقرر کرنے کی درخواست قبول کرلی ہے جس پر بھارت کا یہ اعتراض اس لئے بے معنی ہے کہ سندھ طاس معاہدہ میں کسی تنازعہ کو ثالث کے ذریعے طے کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ چونکہ یہ معاہدہ عالمی بنک نے ہی طے کرایا ہے اس لئے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو عالمی بنک کو یہ تنازعہ طے کرانے کیلئے ثالث مقرر کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور پاکستان کی درخواست پر عالمی بنک نے اپنا یہی حق استعمال کیا ہے جس پر بھارت کا واویلا اسکے اس خبث باطن کی ہی عکاسی کرتا ہے جو وہ پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کیلئے شروع دن سے اپنے دل میں رکھتا ہے۔
Nuclear Weapons
بھارت نے دسمبر 1971ء میں پاکستان کو سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے کے بعد بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے عزائم ترک نہ کئے اور باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی خدانخواستہ ختم کرنے کی نیت سے 1974ء میں خود کو ایٹمی قوت بنالیا چنانچہ ان بھارتی عزائم کی بنیاد پر پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کے تحفظ کی خاطر مجبوراً ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنا پڑا جس کا اعلان بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے 28مئی 1998ء کو جوابی ایٹمی دھماکے کرکے کیا جبکہ بھارت نے اسکے بعد امریکہ’ فرانس’ جرمنی اور برطانیہ سے ایٹمی تعاون کے معاہدے کرکے جدید اور روایتی ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر لگالئے اور پھر امریکی تعاون سے ایٹمی ہتھیار خود تیار کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی۔ اس کا یہ سارا جنگی جنون درحقیقت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت کے ہی تابع ہے اور اگر پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل نہ کی ہوتی تو بھارت اب تک اسکی سالمیت پر وار کرکے باقیماندہ پاکستان کو بھی ہڑپ کرچکا ہوتا۔ وہ آج بھی پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی ہی نیت رکھتا ہے اور اسی تناظر میں اس نے اب جاپان کے ساتھ بھی ایٹمی تعاون کا معاہدہ کیا ہے۔
بادی النظر میں اس معاہدے کے تحت بھارت نے ایٹمی توانائی کو صرف پرامن مقاصد کیلئے استعمال کرنا ہے مگر جب ایٹمی بٹن اسکی دسترس میں ہوگا تو اپنے خبث باطن کی بنیاد پر وہ کسی وقت بھی اس ایٹمی طاقت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال کرسکتا ہے۔ اسی تناظر میں چین نے بھارت جاپان ایٹمی معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اس سے علاقائی امن و سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔بی این پی کے مطابق بھارت کو اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے باعث بھی حوصلہ ملا ہوگا کیونکہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ بہتر تعلقات کار کا عندیہ دے دیا تھا چنانچہ یہ صورتحال عالمی برادری کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے کیونکہ بھارتی جنونی عزائم سے علاقائی ہی نہیں’ عالمی امن و سلامتی بھی سخت خطرات کی زد میں ہے۔ اب بھارت کو اسکے جامے میں رکھنا عالمی قیادتوں بالخصوص امریکہ کی ذمہ داری ہے۔
اگر ٹرمپ اپنے انتخابی منشور پر ہی کاربند رہے اور انہوں نے بھارت کی انتہاء پسند مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونیوالے سنگین خطرات کا احساس نہ کیا تو پھر ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ بالآخر دنیا کی تباہی کی نوبت لے آئیگا۔ اس سے بچنے کیلئے عالمی قیادتوں کو بہرصورت بھارتی جنونیت کے آگے بند باندھنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں جہاں بھارت کی ایٹمی ہتھیاروں کی جنونیت کو عالمی ایٹمی قوانین کے تابع کرنے کی ضرورت ہے وہیں اسے پاکستان کیخلاف آبی جارحیت کے ارتکاب سے بھی روکنا ہوگا۔ بصورت دیگر پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے ایٹمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہے گا۔ اگر آج دنیا نے ان بھارتی عزائم کا ادراک نہ کیا تو کل کو عالمی تباہی ہمارا مقدر بنے گی۔