ٹوکیو: شوجی موری موتو ایک عرصے سے بیروزگار تھے اور اب وہ جاپان کی مشہور شخصیت بن چکے ہیں۔ ٹویٹر پر ان کے مداحوں کی تعداد پونے تین لاکھ سے زائد ہے جبکہ ٹٰی وی اور رسائل وجرائد اکثر ان کے انٹرویو کرتے رہتے ہیں۔ وہ کچھ نہیں کرتے بلکہ لوگوں سے ملتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں۔ وہ خود کو اجنبیوں کے لیے کرائے پر دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھتے، کھاتے اور پیتے ہیں۔
ایک اچھے طالبعلم کی طرح شوجی نے بہت محنت کی اور طبیعیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ایک اشاعتی ادارے میں وہ کتابوں کے مدیر بنے لیکن 2017 میں انہیں یہ ملازمت نہیں بھائی۔ اس کے بعد انہوں نے جرمن مفکر فریدرخ نتشے کی تحریریں پڑھیں جس سے ان کی زندگی تبدیل ہوگئی۔
2018 میں انہوں نے اشتہار دیا کہ اگر کوئی انہیں صرف کرایہ اور(اگر) کھانا دے سکے تو وہ چیری کے کھلتے پھولوں کے ساتھ بیٹھ کر بات سننے اور ملاقات کے لیے حاضر ہیں۔ لیکن اس کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں کا تانتا بندھ گیا اور اجنبی لوگوں نے انہیں بلانا شروع کردیا۔ انہیں جاپان میں ’مسٹر رینٹل‘ کا نام دیا گیا ہے اور اب وہ اتنے مصروف ہیں کہ اکثر صبح 8 بجے گھر سے نکلتے ہیں اور رات دس بجے تک واپس آتے ہیں۔
ایک عرصے تک وہ لوگوں سے کوئی رقم نہیں لیتے تھے اور مفت میں اپنی خدمات فراہم کیں لیکن اگر کوئی کھلا پلا دے تو وہ قبول کرتے تاہم آمدورفت کا کرایہ ضرور لیتے تھے۔ بعد ازاں لوگوں کے اصرار پر انہوں نے کچھ معاوضہ لینا شروع کردیا اور اب وہ اچھی خاصی رقم کمارہے ہیں۔
وہ ہر ماہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک شخص کے پاس جاتے ہیں اور تین گھنٹے تک اس کے مشغلوں کے متعلق اس کی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ شادی پر دلہن کے قریبی عزیز بنے اور دوسری مرتبہ وہ ایک شخص کے مقدمے میں اس کے ساتھ عدالت گئے تاکہ ملزم کو ڈھارس بندھی رہے۔
لیکن یہ واقعہ جاپان میں تنہا لوگوں کا المیہ بھی سناتا ہے۔ جاپان کی تیزرفتار زندگی میں لوگ ایک دوسرے کو وقت نہیں دیتے۔ اس سال صرف کورونا کی وبا میں تنہا رہنے والی 3000 سے زائد خواتین خودکشی کرچکی ہیں۔ جاپان میں بوڑھے لوگوں کی بڑی تعداد بھی لوگوں سے بات کرنے کو ترس چکی ہے۔