واشنگٹن (جیوڈیسک) ترکی اور ایران کے وزرائے خارجہ نے جمعے کے روز تجارتی تعلقات کو فروغ دینے اور شام کے بحران کے حل کے لیے وسیع تر تعاون کے احد پر اتفاق کیا ہے، باوجود اس بات کے کہ اِس معاملے پر اُن کے درمیان نااتفاقی ہے۔
ایک مشترکہ اخباری کانفرنس میں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گذشتہ ماہ کی ناکام بغاوت کے بعد اپنے ملک کی جانب سے ترکی کے لیے حمایت کا اظہار کیا، یہ فوج کی داخلی بغاوت تھی جس میں 270 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
ترک وزیر خارجہ میوت چاوش اوگلو نے اپنے ایرانی ہم منصب کے لیے تعریف اور تشکر کے الفاظ ادا کیے۔ چاوش اوگلو نے کہا کہ گذشتہ ماہ کی فوجی بغاوت کے تناظر میں ظریف کی حمایت اہمیت رکھتی ہے۔
چاوش اوگلو کے بقول، ’’بغاوت کی رات میں پوری رات نہیں سو سکا، ناہی میرے دوست، جواد ظریف سوئے۔ یہ وہ وزیر خارجہ ہیں جن سے میں نے کافی دیر تک گفتگو کی، جب کہ اُنھوں نے اُسی رات پانچ بار بات کی‘‘۔
ناکام بغاوت کے کچھ ہی دِن کے اندر ردِ عمل کی سست روی کے علاوہ یورپ اور امریکہ کی جانب سے بغاوت کے مبینہ منصوبہ سازوں کے خلاف کی جانے والی سخت کارروائی پر بڑھتی ہوئی تنقید پر ترکی خفہ ہے۔ ناکام بغاوت کے بعد اب تک 35000 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جب کہ تقریباً 18000 افراد کو گرفتار کیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ترکی کے لیے ایران کی حمایت کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
دورہٴ انقرہ کے دوران ظریف نے ارودان سے بھی ملاقات کی۔ بین الاقوامی امور سے متعلق ترک صدر رجب طیب اردوان کی مشیر، عاسی سوزن سزلر کے مطابق ’’ہمارے لیے یہ معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جو بھی ترکی کی جمہوریت اور جمہوری حکومت کی حمایت کرے گا، وہ ہمارے لیے اہم ہے، ہم اِسے ہمیشہ یاد رکھیں گے‘‘۔
ناکام بغاوت کے دوران ایران کی ترکی کی حمایت کے معاملے پر اُس کی جانب سے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ترکی اپنے اتحادیوں سے دور ہوجائے گا۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران ایران کے حریف، سعودی عرب اور قطر ترکی کے مضبوط ترین علاقائی اتحادی بن گئے ہیں، جس کی بنیاد شامی حکومت کے خلاف لڑنے والی باغی لڑاکا فورس کی مشترکہ حمایت ہے، جس ملک کی ایران سخت پشت پناہی کرتا ہے۔
تاہم، سزلر نےشام کے معاملے پر ایران کے ساتھ نااتفاقی کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔