تحریر : واجد علی جواں فکر شعراء کا ذکر کیا جائے تو اقبال جاوید کا نام نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہتا۔ انہوں نے 3اپریل1960 کو پاکستان کے شہربہاولپور میں ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد نور احمد کا روزگار اگرچہ سرکاری ملازمت اور زمیندارہ تھا مگر تعلیم یافتہ اور ادب شناسی کی بنا پر ان کے ہاں ادبی تقاریب اور محفل مشاعرہ کا انعقاد باقاعدگی سے ہوا کرتا تھا ۔ان دنوں بچوں کا ایک رسالہ”ہدایت” باقاعدگی سے ان کے گھر آتا تھا۔یوں اقبال جاوید کا ادبی اور شعری ذوق و شوق تحریک پاتا رہا۔ انہوں نے شعر لکھنے کا آغاز جماعت پنجم سے کیا ۔شروع شروع میں وہ نامور شعراء کے منتخب اشعاراپنی ڈائری میں محفوظ کیا کرتے تھے۔ ان کا اس زمانے کا ایک قطعہ۔
آب لالہ گو جو پیتے ہو ہوش میں بھی رہو مزہ تب ہو ہو کے مدہوش گر پڑے گر تم پھر سمجھو لو کہ طفل مکتب ہو
وہ درجہ پنجم تک کانونٹ سکول بہاولپور کے طالب علم رہے، بعدازآں انہوں نے لارڈ فیض رساں سکول اور گورنمنٹ ایس۔ڈی، ہائی سکول بہاولپور سے تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد انہوں نے ٹیکنکل کالج بہاولپور سے ڈپلومہ کیا۔ کاٹن کوالٹی ٹیسٹنگ کا کورس زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا اور سندھ ٹنڈو جام سے مختلف ڈپلومے کرنے کے بعد ایک عرصہ تک کاٹن کلاسر اور جننگ سپیشلسٹ کے طور پر کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن اور ٹریڈنگ کارپویشن سے منسلک رہے ۔اس دوران ان کا شعری شوق بھی جاری رہا ۔2007 میں دی سٹی سکول بہاولپور سے منسلک ہو گئے اور اردو اور موسیقی کے استاد کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ۔ شاعری میں آپ کو محسن نقوی،بیدل حیدری،شہاب دہلوی اور مناظر حسین نظر(جو احسان دانش کے شاگرد تھے) کی سرپرستی حاصل رہی۔انہیں مقامی اور قومی سطح پرکئی توصیفی اعزاز حاصل ہیں ابھی حال ہی ایک غیر سرکاری تنظیم BJF(بہاولپور جرنلسٹس فورم )نے قلم کاروں اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات دینے والوں کے لیے ایک ایوارڈ تقریب کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ تھے ۔اس موقع پر اقبال جاوید کے فن کے اعتراف میں انہیں حاصل زندگی ایوارڈ پیش کیا ہے جس کے وہ یقینی طور پر حق دار تھے۔ان کی ایک نظم بعنوان”شب گزیدہ”حاضر خدمت ہے۔
”شب گزیدہ” ردائے مہتاب و کہکشاں شب نے اتاری اور سحر کی نور سی رو پہلی کرنوں کی قبا کو زیب تن کر کے،جو محو خواب تھے ان کو پیام زندگی بخشا مگر دل ازل سے جن کے تنہائی،اداسی،رنج وغم محرومیوں اور حسرتوں کا ایک ہی موسم محیط بیکراں ہو رتجگے جن کا مقدر،تیرگی جن کی رفیق زندگی ہو اور اجالے جن کو ڈستے ہوں سحر تو موت ہے ان کی سحر تو موت ہے ان کی سحر تو موت ہے ان کی
میں سمجھتا ہوں کہ اقبال جاوید نے بچپن ہی سے زندگی کا مطالعہ و مشاہدہ جذباتی،جمالیاتی اور نفسیاتی پہلوئوں سے کیا ہے۔تفکر ان کے مزاج کا حصہ ہے لیکن وہ شاعری میں منطقی انداز اختیار نہیں کرتے ہیں بلکہ ہمیشہ جذبے اور خیال کو اہمیت دیتے ہیں۔ان کے یہاں تجربات و احساسات کا تنوع بھی ہے اور شعری تصورات کا ربط بھی۔وہ ہر چیز کو جمالیاتی ڈھانچے میں ڈھالنا خوب جانتے ہیں۔زندگی کے تمام تجربے کا متبادل ان کے یہاں نقش جمال کی صورت موجود ہے۔مجموعی طور پر ان کی شاعری میں زندگی کا المیہ پہلو زیادہ نمایاں ہے اس میں غم زندگی،غم روزگار اور غم عشق کے علاوہ ان کی ذاتی نا آسودگیاںبھی شامل ہیں۔ اقبال جاوید کی ایک نعتیہ ہائیکو قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر۔
نعتیہ ہائیکو آپ کا فرمان عالی شان ہے ایک دن ایسا بھی لوگو آئے گا وقت سے برکت اٹھا لی جائے گی
فی زمانہ ان گنت ایسے گھر ہیں جن میں غربت و افلاس کے باعث چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور دوسری جانب خواص کے روز شب ہر ذی شعور پر روز روشن کی طرح عیاں ہیں اسی موضوع اقبال جاوید کے یہ دو شعر دیکھئے ۔ وہاں خزاں کے دنوں میں بھی پھول کھلتے ہیں یہاں بہار کا موسم بھی زرد رہتا ہے
ہیں اپنے شہر میں ایسے بھی گھر جہاں جاوید کبھی چراغ کبھی چولہا سرد رہتا ہے
میں سمجھتا ہوں کہ غالب اور اقبال جاوید کو ایک جیسا عہد ملا ہے ۔غالب کے دور میں پرانی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ،مغل تہذیب کے انحطاط اور سماجی اقدار کا رہا سہا بھرم اٹھ گیا تھا۔آج اقبال جاوید کو ایک ایسا دور ملا ہے جس میں اخلاقی قدریں ناپید ہو چکی ہیں۔خوشامد پسندی سکہ رائج الوقت ہے۔شاعری کا معیار صرف اور صرف اقرباء پروری تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ اگر کوئی نیا شاعر انجمن باہمی ستائش کا ممبر ہے تو اسے دنوں میں ذرائع ابلاغشہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیتے ہیں اور پھر وہ شاعر خود پسندی کی فصیل میں ہمیشہ کے لئے قید ہو جاتا ہے اور تمام حیات وہ یہ جان ہی نہیں پاتا کہ شاعری کا اصل اور حقیقی مقام کیا ہے اور اس نے کتنی منزلت طے کی ہے۔ اقبال جاوید وہ شخصیت ہیں جنہوں نے تمام نا مسائد حالات کے باوجود اندرون ملک و بیرون ملک میں نام کمایا ہے جبکہ انہوں نے اپنے کسی تعلق کو اپنے ذاتی مفاد اور تشہیر کے لئے استعمال نہیں کیا۔ ”وہ میرا دوست”کے عنوان سے ان کا یہ قطعہ دیکھئے ۔
گرگ سا ،زاغ سا،سنگ چور سا،کرگس جیسا پیر فرتوت،بلا عہد شکن اور کذاب مصلحت کیش،مہا محسن کش ابن الوقت فطرتاً پتھر دل ،ظالم و جابر قصاب
یہ بات قابل رشک ہے کہ وہ گیت،غزل،نظم اور ہائیکو کے باکمال تخلیق کار ہیں اور یہ بات بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ ان کا قلم بے تکان لکھتا ہے، خوب لکھتا ہے اور بہت تفصیل سے لکھتا ہے ان کا اپنا رنگ ہے اپنا زاویہ نگاہ اورالگ شناخت ہے۔ ان کے کلام کی خصوصیات پر کچھ لکھناسورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ فکر و فن کی باریکیاں ان کے آگے طفل مکتب نظر آتی ہیں بلا شبہ اقبال جاوید ایک عبقری شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی مجموعی شاعری سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک مخصوص دھارے میں بندھنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ تنوع ان کی فطرت میں شامل ہے۔ان کی اس غزل کا رنگ دیکھئے۔
حالات بدلتے ہیں یوں بھی ہرچند گمان نہیں ہوتا وہ کچھ بھی ہوتے دیکھا ہے جس کا امکان نہیں ہوتا
غزلوں کو خون پلاتے ہیں گمنامی میں مر جاتے ہیں ایسے بھی سخن ور ہوتے ہیں جن کا دیوان نہیں ہوتا
ممکن ہے غلط بھی ہو لیکن ہم نے تو یہی کچھ دیکھا ہے ہر اچھا شاعر فطرت میں اچھا انسان نہیں ہوتا
چاہت کا معطر جھونکا جسے چھو جائے کبھی انجانے میں اس شخص کی سوچوں کا آنگن ہر گز ویران نہیں ہوتا
ہر وقت زبانیں کاٹنے کا قانون بنایا جاتا ہے مذہب کے نام پہ کون سے دن جاری فرمان نہیں ہوتا
تم کیوں جاوید جھجھکتے ہو ڈنکے کی چوٹ پہ بات کرو جو سچ کہنے سے گھبرائے مرد میدان نہیں ہوتا
اقبال جاوید کی شاعری کا دائرہ کارنہ صرف وسیع ہے بلکہ ان کی شاعری میں موضوعات کی انفرادیت اور ندرت پڑھنے اور سننے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ ان کے کلام میں جذبوں کی صداقت،کلام کی شیرینی و ملاحت اور عرض ہنر میں دیدہ و دل کی بصارت جگہ جگہ جلوہ افروز نظر آتی ہے۔ وہ نہ تو مافوق العادت اوہام وتخیلات کے اسیر ہیں اور نہ ہی ماورائیت کے دلدادہ بلکہ زمین پر ننگے پاؤں چل کر زمینی حقیقتوں کا بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں اور ان سے بے باکانہ آنکھیں ملا کر باتیں کرتے ہیں۔ ان کے افکار و خیالات میں قدامت یا باسی پن کا کوئی احساس نہیں ہوتا، تازہ کاری ان کاوصف خاص ہے۔ان کی غزل کے یہ اشعار دیکھئے کہ کس طرح دعوت فکر دیتے ہیں۔
سفر سفر ہے سمجھ سوچ کر تلاش کریں جو ہم مزاج ہو وہ ہم سفر تلاش کریں
مزہ تو تب ہے کہ ضمیمہ نکالنا پڑ جائے کوئی انوکھی ،اچھوتی خبر تلاش کریں
اسی لئے تو کہا تھا کہ سر جھکا کے چلو اب آئو مل کے سبھی اپنے سر تلاش کریں
لبوں تک آنے سے پہلے مراد کو پہنچے سوال کرنے سے پہلے وہ در تلاش کرنے
کسی صدا کو جہاں داخلے نہ ملتے ہوں ہم ان خموش جزیروں میں گھر تلاش کریں
ان کی غزلیں تغزل سے بھر پوراور فنکارانہ حسن کاری سے مزین ہوتی ہیں۔ تراکیب کی خوبصورتی، تشبیہات کی ندرت،الفاظ کا جادوئی اثر، نرم وخوشنما قافیوں کے موتی، مشکل اضافتوںکے باوجودمصرعوں کی روانی اور ان سب پر مستزاد آپ کی کسر نفسی دلوں کو متاثر کرتی ہے۔ اقبال جاوید کی غزلیں نہایت خوبصورت ردیفوں میں طرز ادا کی خوشنمائی کے ساتھ ساتھ انفرادی طر زِفکر اور جدت پسندی کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ تجربات کی دلکشی کوکلام کی روح میں سموکر احساس کی خوشبو جگاتے ہیں اور قاری کے دل و دماغ کومتاثر کرکے جمالیاتی شعور کی آبیاری کرتے ہیں۔غالب،اقبال،فیض،فراز اور محسن نقوی ان کے پسندیدہ شعرا ہیں۔ اقبال جاوید شاعری کے علاوہ فن موسیقی پر بھی خوب دسترس رکھتے ہیں۔ وہ خوب صورت اور سریلی آواز کے مالک ہیں اورموسیقی میں مستعمل تقریباً دس سازوں پر یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں صحت کے ساتھ لمبی زندگی دے تاکہ وہ یونہی اردو ادب کی خدمت کرتے رہیں۔