غیرت کی آگ

Honor

Honor

تحریر: مسز جمشید خاکوانی
خبریں اخبار میں بڑی بڑی خبروں کے درمیان چھپی ایک چھوٹی سی خبر نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ جسکی بظاہر کسی کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہو گی لیکن اس سے جو واقعہ مجھے یاد آیا وہ میرے لیئے بہت ہی دل دکھانے والا تھا۔ خبر کچھ یوں تھی کہ لیاقت پور میں لڑکی ہمجولیوں سے کھیلنے ہمسایوں کے گھر چلی گئی جس پر چچا نے اسے سوٹوں سے اتنا مارا کہ وہ دم توڑ گئی لڑکی کی نعش کو چار گھنٹوں کے اندر دفنا دیا گیا ملزم فرار ہو گیا ہے جبکہ ملزم کے والد کا کہنا ہے چچا نے بھتیجی کو صرف تھپڑ مارے تھے لڑکی نے زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کی ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو تفصیلات تو ملزم کی گرفتاری کے بعد ہی سامنے آئیں گی۔لیکن ہمارے ہاں یہ واقعات اتنا معمول کی شکل اختیار کر گئے ہیں جن پر اب کوئی پچھتانا بھی گوارہ نہیں کرتا۔

اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس قسم کے واقعات یہ سوچ کر دبا دیئے جاتے ہیں یا راضی نامہ کر لیا جاتا ہے کہ قاتل اور مقتول آپس میں قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں اور افراد خانہ سوچتے ہیں چلو اس کی تو قضا آئی کھڑی تھی اب دوسرا تو بچ جائے یہی سوچ ملزم کی بریت کا باعث بن جاتی ہے پولیس بھی ایسے معاملات میں چشم پوشی سے کام لیتی ہے اور کچھ دے دلا کر معاملہ ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔

غیرت یا غصے کی آگ میں جلتے مردوں کی انا عورت کی جان لے کر ہی ٹھنڈی ہوتی ہے خصوصاً دیہاتوں میں ایسے جرم بہت عام ہیں دو واقعات تو میرے علم میں ہیں بہت تفصیل کے ساتھ جنھوں نے مجھے برسوں ڈسٹرب رکھا۔ایک واقعہ ہمارے مزارع کا ہے جس کی سالی اپنے ہی گائوں کے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔انہوں نے بہت تلاش کیا تب پتہ چلا وہ دونوں کسی وڈیرے کی پناہ میں چلے گئے ہیں۔۔یہ لوگ سندھ کے کسی علاقے سے آئے تھے ادھر ایسے واقعات بہت عام ہیں اگر پارٹی کمزور ہو یعنی لڑکی لڑکے کے وارثان کے پیچھے کوئی تگڑی پارٹی نہ ہو تو کوئی وڈیرا انہیں پناہ دے دیتا ہے پھر وہ تمام عمر انکی چاکری کرتے ہیں صرف روٹی کپڑے کے عوض بے دام غلام۔۔اور اگر وارثوں کے پیچھے بھی تگڑی پارٹی ہو تو پھر وہ واپس لائے جاتے ہیں اور ” کارا کاری ” کر کے مار دیئے جاتے ہیں۔

Women Violence

Women Violence

بحرحال بھاگنے والے ہاتھ نہ آئے تو لڑکی کی بوڑھی ماںکو گلا دبا کر مار دیا گیایہ کام لڑکی کے چچا اور ماموں نے ملکر کیا اور پھیلا دیا گیا بوڑھی عورت تھی سر پہ بھرا ہوا گھڑا رکھ کے آ رہی تھی منکے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔اس کے بعد وہ لوگ راتوں رات گائوں چھوڑ کر چلے گئے کچھ عرصے بعد اس مزارعے کی بیٹی مجھے ملی تو اس نے یہ واقعہ مجھے سنایامیں نے پوچھا ان کو پولیس نے نہیں پکڑا تمھاری نانی کے قتل کے جرم میں ؟کہنے لگی قاتل ایک میری نانی کا سگا بیٹا تھا اور ایک بھتیجاہم کیسے پکڑواتے نانی بوڑھی تھی حیاتی کے دن پورے کر گئی اب جوان جہان بندوں کو کیوں مرواتے ویسے بھی بی بی انہوں نے اپنا غصہ کہیں تو نکالنا تھا ورنہ برادری طعنے دیتی رہتی۔۔۔۔۔

دوسرا واقعہ خود میرے بچوں کی آیا کے ساتھ پیش آیا (اس کا فرضی نام منظوراںسمجھ لیں )تو منظوراں بہت ہنس مکھ تمیزدار فعال عورت تھی ،اس کی ماں بھی ہمارے پاس رہ چکی تھی اس کا چھوٹا بیٹا بیمار ہو کر فوت ہو گیا تو وہ بوڑھی اماں اپنے یتیم پوتے پوتیوں کی پرورش میں لگ گئی کیونکہ ان کی ماں پہلے ہی مر چکی تھی بحر حال بارہ سے پندرہ سال کی عمر کے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا (ہم نے انکو کوارٹردے رکھا تھا) کچھ عرصے بعد انکی دادی نے اپنی بیٹی(منظوراں) کے بچوں کے ساتھ وٹہ سٹہ کر کے ایک پوتی کی شادی کر دی جبکہ ایک لڑکی اور لڑکے کا نکاح کر دیامنظوراں کی بہو تو اپنے گھر خوش باش بسنے لگی لیکن منظوراں کی بیٹی کا گھر آباد نہ ہو سکا ۔ہوا یوں کہ اس کا بھتیجا جس سے اس کی بیٹی کا نکاح ہوا تھا ۔وہ لڑکا کمانے کراچی چلا گیا ،وہاں کچھ عرصے بعد اس کو ایک دمی مل گیا جو اسے مسقط لے گیا ،بڑے شہر اور دوسرے ملک کی ہوا لگتے ہی لڑکا نکاح سے بھاگنے لگا ۔وٹہ سٹہ تھا اس لیئے اس کی بہن کا گھر بھی لڑائی جھگڑوں کی آماجگاہ بن گیا ۔لیکن اسے کوئی پرواہ نہ تھی آخر ایک دن اس نے منظوراں کی بیٹی کو طلاق نامہ بجھوا دیا۔

منظوراں سمجھدار عورت تھی اس نے اپنی بہو کو طلاق نہ دینے دی جو دو بچوں کی ماں بن چکی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ منظوراں اپنے شوہر کے عتاب کا شکار ہو گئی اس کے شوہر نے اس کے سر پہ جوتوں کی برسات کردی کہ تمھاری بھتیجی تو میرے بیٹے کے گھر عیش کرتی رہے اور اس کا بھائی میری بیٹی کو دے طلاق وہ اس کے سر پہ مارتا رہا جب تک وہ بے ہوش نہ ہو گئی ۔ہم ان دنوں مری سوات وغیرہ گئے ہوئے تھے ۔واپسی پر میں نے اسے بلوایا تب مجھے ان واقعات کا علم ہوا وہ ہاسپٹل رہ کر آئی تھی پہچانی نہیں جا رہی تھی رو رو کے اس نے مجھے وہ واقعہ سنایا ،وہ کہنے لگی مجھے چکر آتے ہیں نظر کم آتا ہے اب کام نہیں کر سکتی ۔میں نے اس کو پیسے دیئے کہ اپنے ٹیسٹ کروائو ،لیکن چوتھے روز اس کے مرنے کی خبر آ گئی ۔وجہ یہ بتائی گئی کہ شدید گرمی سے سن سٹروک ہو گیا تھا ۔وہ عورت مجھے بھولتی نہیں جو ہنستی رہتی تھی ایک ناکردہ گناہ کے جرم میں اپنے شوہر کے غصے کی بھینٹ چڑھ گئی۔

نہ کہیں پرچا کٹا نہ آلہ قتل برامد ہوا وہ اپنے شوہر کے تشدد کے فوراًً بعد مر جاتی تو شائد مقدمہ بنتا لیکن وہ ایک ماہ جیتی رہی اس لیئے اس ان ڈائریکٹ قتل کا کسی کو پچھتاوہ تک نہ تھا بلکہ اس کی میت پہ بیٹھی عورتیں میرے اس طرف توجہ دلانے پر کہ وہ شوہر کے تشدد سے مری ہے کہنے لگیں نہ بی بی اس کے بعد وہ ٹھیک تھی یہ کونسی بڑی بات ہے ایسی مار کٹائیاں تو ہر گھر میں عام ہوتی ہیں مرد اپنا غصہ اور کہاں نکالے اس کی بیٹی کو طلاق دے کر اس کے بھتیجے نے اچھا کام تو نہیں کیا تھا ۔میں حیرت سے سوچتی رہی کتنی بے قصور عورتیں ہوتی ہیں جو مردوں کی غیرت اورغصے کا شکار ہو کر چپ چاپ قبر میں اتر جاتی ہیں ۔ایسی شریف النفس عورتیں خاندان کی عزت اور اپنوں کی بدنامی کے ڈر سے چپ چاپ تشدد برداشت کرتی ہیں کبھی زبان نہیں کھولتی ۔مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں اور مردوں کو احساس جرم تک نہیں ہوتا یہ نا خواندہ لوگ اس جرم کو مرد کی غیرت کا نام دے کر پی جاتے ہیں احساس سے نا آشنا یہ بے حس لوگ ہر بستی ہر شہر میں پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے خواتین کی زندگیاں اجیرن ہوتی ہیں۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر: مسز جمشید خاکوانی