تحریر: علی عبداللہ یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی جانب سے ایک بار پھر نئی قرارداد پیش کیے جانے کی توقع ہے۔ غیرملکی نیوز چینل کے مطابق اس قرارداد میں براہ راست امریکہ کا نام نہیں لیا گیا لیکن ٹرمپ کے اس اعلان پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے ۔نئی قرارداد کے مطابق یروشلم کے بارے کسی بھی قسم کا فیصلہ غیر قانونی اور منسوخ سمجھا جائے گا جو سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہو ۔ مزید برآں تمام ممبر ممالک اپنا سفارتی عملہ یروشلم منتقل کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔
اس قرارداد کو امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے واضح امکانات موجود ہیں ۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے چھے مستقل اراکین میں سے اگر کوئی ایک ملک بھی کسی قرارداد کو ویٹو کر دے تو وہ منسوخ سمجھی جاتی ہے ۔گو کہ ترکی اور فلسطین ویٹو ہونے کے بعد اس تنازعے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے جا سکتے ہیں ۔ ٹرمپ کے اعلان کے بعد سے اب تک مختلف مظاہروں میں معذورابراہیم ابو کوثر سمیت نو فلسطینی شہید اور 1900 زخمی ہو چکے ہیں ۔
اقوام متحدہ پچھلے 50 سال سے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو رد کرتا چلا آ رہا ہے لیکن باوجود سیکورٹی کونسل کی لاتعداد قراردوں کے امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر دیاہے ۔ سیکورٹی کونسل کی جانب سے 1967 سے اب تک پیش کی جانے والی قراردادوں پر اک نظر ڈالیے اور سوچیے کہ آخر اتنی مذمت کے باوجود اسرائیل گردی روز بروز کیوں بڑھتی چلی جا رہی ہے ؟کیا اقوام متحدہ اتنا کمزور ادارہ ہے کہ اسکے فیصلے طاقتور ممالک کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے یا پھر عالم اسلام کے مسائل اقوام متحدہ کے لیے اہم نہیں ہیں؟یاد رہے یہ قراردادیں صرف سیکورٹی کونسل کی جانب سے پیش کی گئیں جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی قراردادیں اس کے علاوہ ہیں ۔
قرار داد 242 جو کہ نومبر 1967 میں پیش کی گئی تھی اس کے مطابق اسرائیل فوری طور پر 1967 کے تنازعے کے نتیجے میں قبضے میں لیے گئے علاقوں سے اپنی فوج واپس بلائے ۔ اپریل 1968 میں قرار داد 250 پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل یروشلم میں فوجی ملٹری پریڈ منعقد نہیں کروا سکتا ۔ مئی 1968 میں قرار داد 251 پیش کی گئی جس کے مطابق اسرائیل کی یروشلم میں ملٹری پریڈ کے انعقاد کی مذمت کی گئی ۔
مئی 1968 میی ہی قرار داد 252 پیش گئی جس میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ یروشلم میں اپنی تمام تر ترجیحات ختم کرے اور کسی بھی علاقے پر فوجی مداخلت کے ذریعے قابض نہ ہو ۔ جولائی 1969 میں قرار داد 267 پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ اسرائیل کا فوجی مداخلت کے ذریعے کسی بھی علاقے پر قبضہ ناقابل تسلیم ہے ۔ستمبر 1969میں مسجد اقصیٰ میں آگ لگانے کے واقعے پر قرارداد 271 پیش کی گئی جس میں اسرائیلی فوجی مداخلت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ اسرائیل تمام نقصان کا ذمہ دار ہے اور وہ تمام نقصانات کا ازالہ کرے گا ۔
قرار داد 298 جو کہ ستمبر 1971 کو پیش کی گئی تھی اس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے یروشلم میں کیے گئے تمام اقدامات غیر قانونی ہیں ۔مارچ 1980 میں قرارداد 465 پیش ہوئی جس میں کہا گیا کہ اسرائیل یروشلم میں غیر قانونی آباد کاری اور تعمیرات کو روکے ۔ جون 1980 میں قرار داد 476پیش ہوئی جس میں عرب علاقوں سے اسرائیلیوں کے انخلا پر زور دیا گیا اور یروشلم کے بارے تمام اسرائیلی اقدامات کو منسوخ کہا گیا ۔ اکتوبر 1990 میں مسجد اقصیٰ میں ہونے والی جھڑپ کے نتیجے میں بیس سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جس پر قرارداد 672 پیش کی گئی جس میں اس واقعے کی بھرپور مذمت کی گئی اور اسرائیل کو قابض قرار دیا گیا۔
ستمبر 1996 میں قرار داد 1073 پیش ہوئی جس میں اسرائیل کی مسجد اقصیٰ کے نزدیک سرنگ بنانے کی مذمت کی گئی تھی جس کے نتیجے میں متعددافراد شہید ہوئے تھے ۔ اکتوبر 2000 میں قرارداد 1322 پیش ہوئی جس میں ایریل شیرون کی مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدس مقامات پر آمد کی مذمت کی گئی تھی ۔ یہاں جھڑپوں میں 80 فلسطینی شہید ہوئے تھے ۔ مارچ 2002 میں قرارداد 1397پیش ہوئی جس میں اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے مذاکرات کا کہا گیا تھا تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے ۔
دسمبر 2016 میں قرار داد 2334 پیش ہوئی جس میں اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں غیرقانونی تعمیرات کی مذمت کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ 1967 سے پہلے والی حدود کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے کسی نئی تبدیلی کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔
ان تمام قرار دادوں کے باوجود آج تک نہ تو اسرائیل اپنی 1967 سے پہلے والی حدود میں واپس جا سکا ہے اور نہ ہی بیت المقدس کا رونا رونے والے کسی مؤثر پالیسی کا اعلان کر سکے ہیں ۔ عالم اسلام کو چاہیے کہ باہمی اتحاد کے ذریعے اقوام متحدہ پر زور ڈالے کہ وہ اسرائیل پر مؤثر پابندیاں عائد کرے یا پھر مسلم ممالک مل کر ایسے ممکنہ اقدامات کریں جس سے اقوام عالم مسئلہ فلسطین کو اہم ترین مسئلہ سمجھ کر فوری اس کا حل پیش کر سکیں ۔ وگرنہ عین ممکن ہے کہ دنیا کے نقشے سے فلسطین کا وجود مٹ جائے۔