تحریر : عنایت کابلگرامی امریکا کے متعصب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارلخلافہ تسلیم کرنا ناگزیر ہوچکا تھا اور مجھ پر تنقید بھی کی جائی گی کہ ایسا کیوں کیا ، یہ امن کے لئے ضروری تھا ۔ امریکا کا قومی مذہب عیسائیت اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایک عیسائی ہے، اس کے ساتھ دیگر ممالک جو اسرائیل کی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ حمایت کرتے ہے سیوائے ہندوستان کے سب کے سب عیسائیت مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جتنی سخت دشمنی یہودیوں اور عیسائیوں میں روز اول سے چلی ارہی ہے اتنی سخت دشمنی کسی دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی ہیںلیکن آج وہ ایک ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آج یہ عیسائیت سے وابستہ ممالک اسرائیل اور یہودیوں سے اتنی ہمدردی رکھ رہے ہیں؟۔” وہ وجہ صرف اور صرف اسلام دشمنی ہی ہے”۔یہ مغربی ممالک کے حکمراں اگرچہ لبرل ہونے کے دعویدار ہیں، مگر وہ مذہبی نقطہ نظر سے بالعموم عیسائی ہی ہیں۔ اگرچہ عملاً خود کو اپنے مذہب عیسائیت سے دور رکھتے ہیں، مگر عقیدةً ”وہ عیسائیت کے پیروکار اور ہمنوا ہیں” اور ان کی کوشش ہوتی ہیں کہ وہ عیسائیت کو فروغ دیںیہی لبرل عیسائی حکمراں اقطاع عالم میں اس کے مشن کو عام کرنے میں درپردہ معاونت میں شریک بھی ہیں۔ میں اکثر اوقات میں تعجب میں ہوتا ہوں کہ یہودیوں نے کبھی بھی عیسائیوں کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی عیسائیوں نے یہودیوں کو ، جبکہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قطعاً قبول نہیں کرتے اور ان کی کتابوں میں حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق جو نازیبا الفاظ ،آپ کی توہین اور نامناسب وضاحتیں واضح طور پر ملتی ہیں، جو ایک مسلمان بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا ۔ یہودی اور عیسائی ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے۔زیادہ دور نہیں جاتے ستر آسی سال قبل تک یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ۔
عیسائیوں اور یہودیوں ایک دوسرے کو تہہ تیغ کیا کرتے تھے، ان سب کے باوجود یہودی اور عیسائی اتحاد کس طرح ممکن ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنے درندہ بدن اور خونی دل و دماغ پر نرمی، بہی خواہی اور ہمدردی کی کھال پہن لی ہے۔ وہ بظاہر ہمدردی جتاتے ہیں، لیکن ایسا واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دلوں کو صرف مسلمانوں کے خون سے تسکین ہوتی ہے، کیونکہ یہودی اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے فکرمند نہیں رہتے، وہ اپنے دین کو وسعت دینے کے لئے کوشاں نہیں رہتے اور نہ ہی تبلیغ یا اس کے فروغ کے لئے مشنریز قائم کرتے ہیں۔ ”عیسائیوں کو یہودیوں سے مذہبی نقطہ نظر سے خطرہ نہیں”، کیونکہ یہودیت کی تعلیمات میں لچک نہیں، زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت نہیں، اس کے برخلاف ”اسلام ہی عیسائیت کے لئے خطرہ ہے”۔ مسلمان مذہب پر قائم رہتے ہوئے دنیا کی ترقی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی مذہب اسلام کی طرح مبنی بر حقائق نہیں اور نہ ہی کسی کی تعلیمات میں جامعیت اور کمال ہے اور نہ ہی ہر زمانے کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت ہے۔ عیسائیت کو خطرہ ہے تو صرف اسلام اور مسلمانوں سے ہے، اس لئے آج عیسائی ممالک اسلامی ممالک پر حملہ آور ہیں۔ آج عیسائی یہودیوں کے پشت پناہ ہیں تو یہ صرف عیسائیت کی اسلام دشمنی ہی ہے۔جب ہی تو امریکا نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالخلافہ تسلیم کیا ہے ۔
امریکا سمیت دیگر عیسائی ملکوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی اسرائیل سن 1948ء میں وجود میں آیا تھا،انیسوویں صدی کے آغاز میں ہی اس وقت کے سپر پائور برطانیہ نے مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کو استعمال کرنے کا پروگرام بنایا ،۔دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جرمنی سے بھاگ کر بہت بڑی تعداد میں یہودی اقطاع فلسطین میں اکر پناہ لی کیونکہ ایک اندازے کے مطابق ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کر دیا تھا اور باقی جان بچا کر فلسطین بھاگ آئے تھے۔1947ء میں یعنی اسرائیل کے قیام سے کچھ عرصہ قبل وہاں سات لاکھ اٹھاون ہزار یہودیوں نے پناہ لی تھی۔جب برطانیہ نے یہ دیکھا کہ اتنی بڑی تعداد میں یہودی یہاں بس گئے ہیں تو اس کو اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کا موقع مل گیا جو حکومت برطانیہ نے یہودی پروفیسر ڈاکٹر وائنر مین ( جس کی بدولت برطانیہ ایٹمی پائور بنا تھا ) سے 1917ء میں کیا تھا ، اور یوں فلسطین کو اقوام متحدہ کے حوالے کردیا گیا۔اس وقت صورت حال یہ بنی کہ امریکہ اور روس سمیت تمام طاقت ور ممالک اسرائیل کے حامی تھے۔چنانچہ نومبر1947ء میں اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے سے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔اسرائیل کو کل رقبے کا چھپن فیصد دیا گیا اور فلسطینیوں کو 44%فیصد دیا گیا۔ یہ تو تھی ہی ایک ناجائز تقسیم مگر آبادی کے لحاظ سے بھی ایک ناجائز تقسیم تھی اس لیے فلسطینیوں اور ارد گرد کے عرب ممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔یوں چودہ مئی 1948ء کو آخری برطانوی رجمنٹ کے رخصت ہوتے ہی اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کر لیا۔ آج اسرائیل اپنے حصے چھپن فیصد سے بڑکر 75%فیصد پر قابض ہوچکا ہے، پہلے اسرائیل کا دارالخلافہ تل ایب تھا اب اس نے اپنا دارلخلافہ مقبوضہ بیت المقدس کو بنا دیا ہیں۔ پاکستان سمیت آج بھی کئی اسلامی ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ۔
قارئین آج یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ پر ہیں ، چاہیئے وہ محاذ جنگ ہو، سیاست ہو، یا میڈیا وار سب میں یہ ایک صف میں ہے ، جو ایک دوسرے کی صورت بھی دیکھانا برداشت نہیں کیا کرتے تھے آج وہ ایک صف میں کھڑے ہے ، لیکن ہم مسلمان جو ایک خدا ، ایک کلمہء ایک قرآن ،اور ایک نبی کے ماننے والے ہے ، کیا” ہم ایک نہیں ہوسکتے” ہیں ؟ ۔ آج یہ یہود و نصاریٰ ہمارے ملکوں پر قابض ہورہے ہیں، ہمارے مقدس زمینوں پر قبضہ جمارہے ہیں اور ہم ایک دوسرے پر الزامات لگانے پر مصروف ، جیسا کہ سعودی عرب قطر پر ، تو مصر ترکی پر ، ایران سعودی پر بنگلا دیش اور افغانستان پاکستان پرالزامات لگا رہے ہیں۔ ”مسلمان فرقہ فرقہ ہوچکے ہیں ”، دشمن کو مارنے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ مسلمان ہی مسلمان کو کافر کہہ کر قتل کر رہا ہیں ۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس اسرائیلی دارالخلافہ تسلیم کرنے کے بعد ”امریکادنیا کا پہلا ملک بن گیا ”جس نے یہ قدم اٹھایا مگر رد عمل کے طور پر کسی مسلمان ملک نے اپنا سفیر واپس اپنے ملک نہیں بلایا اور نا ہی امریکی سفیر کو بھلا کر احتجاج رکارڈ کریا ، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اسلامی ممالک کو ایک ہوکر ایک ہی آواز میں امریکی اقدام مخالفت کرتے اور سفارتی تعلق ختم کرتے یا ختم کی دھمکی دیتے تو شاید امریکا اپنے اقدام سے فوری واپس ہوجاتھا ۔
امریکی غلط اقدام اور مسلم اُ مہ کی بے بسی ،آج دنیا کے تین مختلف مذاہب کے ماننے و الے (جن میں ہندو ،عیسائی اور یہودی شامل ہے ) ہم مسلمانوں کے خلاف ایک ہی صف کھڑے نظر آتے ہیں ، کہی وہ کشمیر میں ہمیں مار رہے ہیں ، تو کہیں افغانستان میں ہمیں مارا جاتا ہیں اور پھر دہشتگرد بھی ہم ہی کو کہا جا تا ہیں، فلسطین ،عراق میں جو مظالم مسلمانوں پر ڈھائے گئے تاریخ میں ایسی مثالیں کم ملتی ہیں۔ اتنے بے بس ہوگئے ہے کہ اتنے مظالم سہنے کے بعد بھی ہم مسلمانوں میں اتحاد ناممکن نظر آتا ہیں، جس کی وجہ، آنا اور فرقہ واریت ہے ۔ ” کاش ہم بھی ایک ہوجائے”جب تک ہم ایک نہیں ہونگے یوں ہی ذلیل و رسوا ہوتے رہینگے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یا اللہ تو ہی مسلمانوں کو حضرت عمر فاروق یا صلاح الدین ایوبی جیسے حکمران عطا فرما (آمین)