تحریر: نعیم الرحمان شائق اندلس کے چوتھے اموی سلطان عبد الرحمان دوم کے عہد ِ حکومت میں اندلس میں ایک عجیب و غریب جنونی تحریک کا آغاز ہوا ۔ اگر چہ بہت سے مورخین نے اس کو “مذہبی جنون” قرار دیا ہے۔ مگر میں اسے “مذہبی جنون” نہیں ، بلکہ “جنونی تحریک” کہوں گا ۔ کیوں کہ کوئی مذہب اس طرح کے جنون کی اجازت نہیں دیتا ۔ اگر چہ اس جنون کو اپنانے والا کتنا ہی مذہب کا نام لے۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام ہو چکی ہے ۔ جب لوگ مذہب کے نام پر شدت کو اپناتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں کو “مذہبی شدت پسند” قرار دے دیتے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ مذہب سے بر گشتہ ہو جاتے ہیں اور نا دانستہ طور پر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ واقعی مذہب ایسا ہی ہوتا ہے ۔ دانشور طبقے کو چاہیے کہ مذہب کا نام لیتے ہوئے ذرا احتیاط سے کام لے۔
بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی ۔ بات ہو رہی تھی عبد الرحمان دوم کے عہد ِ حکومت میں اندلس کی ایک جنونی تحریک کی ۔ اس تحریک کا مقصد رسول اکرم ﷺ ، اسلام اور قرآن کریم کو معاذ اللہ سب و شتم کا نشانہ بنانا تھا ۔اسلامی دنیا میں ہمیں اس سے پہلے اس قسم کی تحریک کا احوال نہیں ملتا ۔ گویا یہ اسلامی دنیا کی پہلی جنونی تحریک تھی جس کے ماننے والے سر ِ عام اسلام ، قرآن ِ مجید اور رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے تھے ۔ اس تحریک کا آغاز شمالی اندلس کے عیسائیوں نے کیا ۔ اس تحریک کا بانی قرطبہ کا ایک راہب یولو جیس تھا ۔ لین پول کے مطابق اندلس میں عیسائیوں کو اپنے مذہبی مراسم آزادی سے انجام دینے کی جو رعایتیں حاصل تھیں ، ان کی طبائع کی کج روی سے اس کا عجیب بر عکس قسم کا نتیجہ ظاہر ہوا ۔ درا صل لین پول یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں نے عیسائیوں کو کھلم کھلا مذہبی آزادی دی تھی ۔ انھوں نے اس کا غلط فائدہ اٹھایا ۔ یہاں تک کہ عیسائی مذہب کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کیا اور رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس اور اسلام پر سب شتم کا آغاز کر دیا ۔اب میں اس تحریک کے اولین لوگوں کا ذکر کرتا ہوں۔
Christian Community
یولو جیس: جیسا کہ اوپر کے اقتباس میں ذکر ہو ا کہ اس تحریک کا بانی یولو جیس نامی قرطبہ کا ایک راہب تھا ۔ اندلس کی عیسائی کمیونٹی میں اس کی بہت عزت کی جاتی تھی ۔ اس نے نوجوانوں میں عجیب و غریب تعلیمات پھیلائیں ۔ اس کی تعلیمات یہ تھیں کہ جو شخص بھی دین ِ اسلام اور اور اس کے داعی (ﷺ) پر سب و شتم کرے گا، تو اس کے نتیجے میں وہ قتل ہو جائے گا ۔(اسلامی تعلیمات کی رو سے رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والی کی سزا قتل ہے ۔) جس سے اس کی روح پاک ہو جائے گی ۔ایسا شخص شہادت کے مرتبے پر فائز ہو جائے گا۔ یولو جیس کی اس جنونی تحریک کو کامیاب بنانے میں جن لوگوں نے اہم کردار اد کیا تھا ۔ ان کا ذکر تفصیل سے یہاں نہیں کیا جا سکتا ۔ یہاں ہم اس کی تحریک کے تین اہم لوگوں کا ذکر کرتے ہیں ۔
فلورا: فلورا کا باپ مسلمان اور ماں عیسائی تھی ۔ ماں کی تعلیم نے فلورا کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ۔ فلورا کا بھائی تو اپنے دین پر قائم رہا ۔ مگر وہ عیسائی بن گئی ۔ ایک دن وہ گھر سے بھاگ نکلی اور عیسائیوں کے درمیان رہنے لگی ۔ جب اس کے فرار ہونے کی ذمہ داری عیسائی پادریوں پر لگی تو وہ گھر واپس آئی ۔ اور اپنے عیسائی ہونے کا اعلان کر دیا ۔ اس کے بھائی نے اس کو سمجھایا ۔ مگر وہ نہ مانی ۔ معاملہ شرعی عدالت تک گیا تو قاضی نے اس کو درے لگوائے اور شرعی حکم کے مطابق اس کو گھر واپس کیا کہ اس کے سامنے اسلام دوبارہ پیش کیا جائے ۔ مگر وہ فرار ہوگئی ۔ اور کسی عیسائی کے گھر میں رہنے لگی ۔ یہاں پہلی مرتبہ اس کی ملاقات یولو جیس سے ہوئی ۔ کہاجاتا ہے کہ ان دونوں کے دلوں میں مسیحی رشتے کی معصوم اور پاک محبت پیدا ہوگئی ۔اس طرح فلورا یولو جیس کی جنونی تحریک میں شامل ہوگئی۔
پر فیکٹس: پرفیکٹس نامی پادری پر یولوجیس کی جنونی تحریک کا گہرا اثر مرتب ہوا ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی جان دے دی ۔ یہ پادری عید کے دن مسلمانوں کے مجمعے میں گھس گیا ۔ اور دین ِ اسلام اور رسول ِاکرم ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات زبان سے نکالنے لگا ۔ ظاہر ہے ، اس طرح کی حرکت سے مجمعے کا مشتعل ہونا ایک فطری عمل تھا ۔ لوگوں نے اس پادری کا کام تمام کر دیا ۔ قرطبہ کا بشپ اس کی لاش اٹھا لے گیا ۔ اور سینٹ کسکلس میں مسیحی تبرکات کے ساتھ اس کو دفن کیا گیا ۔ عیسائیوں نے اس پادری کو شہید ِ ملت کا درجہ دے دیا۔
Pastor
آئیزک: ائزک بھی ایک پادری تھا ۔اس نے بھی یولو جیس کی مذہبی تحریک کے زیر ِ اثر اپنی جان تک گنوا دی ۔ یہ پادری ایک دن مسلمانوں کی عدالت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ لیکن جب اس کے سامنے اسلام کے عقائد بیان کیے گئے تو اس نے اسلام پر سب و شتم شروع کر دی ۔ قاضی کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو گیا ۔ اس نے ایک طمانچہ مار کر کہا کہ اسلام میں تمھارے اس عمل کی سزا قتل ہے ۔ اس نے کہا کہ وہ جان بوجھ کر یہاں آیا ہے ۔ اس لیے کہ خدا فرماتا ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ ، جو دین داری کے لیے ستائے جاتے ہیں ۔ آسمان کی بادشاہت ان ہی کے لیے ہے ۔ آئزک نے بھی اپنے جرم کی سزا پائی ۔
اندلس کی تاریخ میں 237 ہجری بہ مطابق 851 عیسوی وہ سال تھا ، جب یولو جیس کی تحریک عروج پر تھی ۔ اس سال اس کی تحریک کے سبب گیارہ عیسائی لقمہ ِ اجل بنے ۔ لیکن یہ تحریک اندلس میں زیادہ دیر تک نہ ٹھہر سکی ۔ جنونی تحریکوں کے عمریں ویسے بھی طویل نہیں ہوتیں ۔ قرطبہ اور اشبیلیہ کے سنجیدہ مزاج اور ثقہ پادریوں نے جب دیکھا کہ لوگ جنونی تحریک کے زیر ِ اثر لقمہ ِ اجل بن رہے ہیں تو انھوں نے ایک عظیم الشان مذہبی جلسے کا انعقاد کیا۔ اس جلسے میں تمام بڑے بڑے پادریوں کو مدعو کیا گیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ آیا عیسائی مذہب کی رو سے رسول اکرم ﷺ اور قرآن مجید کو گالیاں دینا کار ِ ثواب ہے یا نہیں ؟۔
Decision
اور جو لوگ اس طرح مقتول ہو رہے ہیں وہ شہید یا شاہ ِ ولایت کہلانے کے مستحق ہیں یا نہیں ؟ اس پر عیسائیوں کے پادریوں نے خوب تقریریں کیں اور اس حرکت کو مذہب ِ عیسوی کے بالکل خلاف قرار دے دیا ۔ اس مجلس میں عیسائی پادریوں نے ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا ۔ ان کا عجیب فیصلہ یہ تھا کہ جو لوگ اب تک مقتول ہو چکے ہیں ، وہ تو شہید اور شاہ ِ ولایت سمجھے جائیں گے ۔ لیکن جو عیسائی اس کے بعد اس طرح کی ناشائستہ حرکت کے مرتک ہوگا تو وہ بد معاش سمجھا جائے گا اور گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب ہوگا ۔ پادریوں کی کونسل کے اس فیصلے نے اندلس کے عیسائیوں کو بہت متاثر کیا ۔ اس طرح یولو جیس کی جنونی تحریک کا زور کسی حد تک ٹوٹ گیا۔ (نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے : تاریخ ِ اندلس۔۔مولانا ریاست علی ندوی تاریخ ِ اسلام ۔۔ اکبر شاہ نجیب آبادی)
تحریر: نعیم الرحمان شائق ای میل: shaaiq89@gmail.com فیس بک fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq