تحریر: شفقت اللہ خاں سیال میں نے اپنے پچھلے کالم قدیمی ضلع جھنگ اور اس کے مسائل پر لکھ تھا۔جس میں پہاڑے شاہ پارک کا ذکر کیا تھا ۔کہ اس کا کام مکمل نہیں کیا جا رہا ۔ہاں اس کا صرف یہ فائدہ ہے۔جوکہ ٹی ایم اے جھنگ کے ایس ڈی او رانا سلیم نے اپنی خصوصی کاوش سے کام کو ٹھیکیدار سے شروع کروادیا ہے۔جب کہ یہاں کے افسران تو ایسے بیٹھے ہیں۔جیسے صرف وہ اپنے آفس میں عوام کو منہ دکھانے آتے ہیں۔آج شہر کا جو براحال ہوا پڑا ہے۔اس کا ذمہ دار کون ہے۔آج یہاں یہ معلوم نہیں ہوتا۔کہ شہر میں کون سی گلی کون سی سٹرک یا سیوریج کون سے محکمہ نے بنوا یا ہے۔لوکل گورنمنٹ۔ٹی ایم اے جھنگ یا پھر محکمہ پبلک ہیلتھ اس کو تو بد نصیب ضلع ہی کہوں گا۔
جیسا کہ اس کا کوئی وارث ہی نہ ہو۔آپ محرم روٹس کو ہی اگر دیکھ لیں ۔محرم روٹس کے ہر سال ٹینڈرز ہوتے ہیں۔اب بھی تقریبا دوکروڑ پچاس لاکھ کے ٹینڈر ہوئے۔اس محرم روٹس میں کچھ کام ایسے بھی ہیںجوہرسال کروائے جاتے ہیں۔اگرایک گلی پچھلی دفعہ بنائی گئی تھی۔تواس کو اب دوبارہ بنایا جارہاہے۔اگر افسران اپنا قبلہ درست کرلیں تو ہرسال دوبارہ گلی یا سٹرک نہ بنے۔لیکن یہاں اندھا راجا بے دارنگری کا رواج ہے۔افسران تو جیسے آرام کی نیند سورہے ہوتے ہیں۔اگر افسران چاہیے توکوئی ٹھیکیدارکام غلط نہیں کرسکتا۔ٹی ایم اے جھنگ میں تقریبا آٹھ سب انجینئرز ہیں۔لیکن ایک سب انجینئر کو ہر ٹینڈر میں کام سب سے زیادہ کس وجہ سے دیئے جاتے ہیں۔محرم روٹس اب بھی اسی کے پاس ہے۔کیا اس کے علاوہ افسران اور سیاستدانوںکوکوئی سب انجینئر نظر کیوںنہیں آتا۔کیا جو دوسرے سب انجینئرز یوسف۔رمضان۔ارشاد وغیرہ کو کام کرنا نہیں آتا۔کہ وہ باقی سب انجینئرز افسران کے منظور نظر نہیں۔
یہاں جو سب انجینئر مکینیکل ہے۔ان سے تعمیراتی کام کس وجہ سے لیے جاتے ہیں۔آج اس مہنگائی کے دور میںلوگوں کے گھروں کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔اور اس ماصوف نے تقریبا تین کے چار عمرے بھی کر لیے ہیں۔ہمارے پیارے نبی ۖ نے فرمایا۔کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے۔لیکن یہ دوسرے لوگوں کوایسے دیکھتا ہے۔جیسے یہ کوئی نواب ہواور دوسرے اس کی رعایا۔اس نے کون کون سے شہر میں نوکری کی ہے۔اور جھنگ میں اس کا تبادلہ کس سن میں ہوا ۔یہ افسران ایک ہی سب انجینئر کو اتنا کام دے دیتے ہیں۔
Engineer
کیا یہ ہر روز اس ہر ایک سکیم پر جاکر کیا کام بھی چیک بھی کرتا ہے کہ نہیں ۔اس نے جس جس جگہ کام کروائے ہیں۔ان کو دیکھ کر ہی پتہ چل جاتاہے کہ یہ اسی سب انجینئر کی سائٹ ہے۔ جس شخص کو کوئی کام نہیں آتا۔اور اس کے پاس پیسہ اور شفارش ہے۔وہ ٹی ایم اے جھنگ کا ٹھیکیدار بن جاتاہے۔آج اکثریت ٹھیکیدار ایسے ہیں۔جو کام کرنیوالے ٹھیکیدار حضرات تھے وہ آپ کو بہت کم نظر آئے گئے۔آج شہر میں جس جس جگہ کام ہورہے ہے۔معلوم نہیں ہوتا کہ یہ ٹی ایم اے جھنگ کروا رہا ہے ۔یا لوکل گورنمنٹ کہ پبلک ہیلتھ کے ہے۔گورنمنٹ تو ضلع جھنگ کو پیسہ دے رہی ہے۔
لیکن شہر میں کسی جگہ لگا نظر نہیں آتا ۔جھنگ سٹی کے جن میں محلوں گادھیاں والا۔بستی گھوگھے والی۔کچہ ریلوئے روڈ۔پکہ ریلوئے روڈ۔یوسف شہید روڈ۔میلاد چوک۔لاری اڈا وغیرہ میں کسی بھی جگہ کو دیکھ لے ۔تو ہر طرف سڑکوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔یہاں میں آپ محلہ جوگیاںوالہ کے ٹھیکیدار کو ہی دیکھ لیں جس نے ابھی تک محرم کام شروع نہیں کیا کوئی جگہ تو ایسی ہے ۔کہ ٹھیکیدار کام مکمل کیے بغیر آرام سے اپنے گھروں میں آرام فرما رہے ۔جبکہ شہر کی عوام ذلیل وخوار ہورہی ہے۔اگر کسی سائٹ پر کام اگر مکمل ہو بھی چکا ہے ۔پر وہاں دوبارہ سٹرک کو تعمیر نہیں کیا گیا۔
شہر میں دھول مٹی اڑ رہی ہے۔جتنے بھی آج تک ٹینڈرہوئے۔مگر شہر میں ایسے معلوم ہوتا ہے۔جیسے کام ہوہی نہیں رہے۔ضلع جھنگ ترقی کرنے کی بجائے ۔پیچھے جارہاہے۔چنیوٹ ضلع جو اس کی تحصیل ہوا کرتا تھا ۔آج اگر وہاں جا کر دیکھے تو انہوں نے شہر کی کسے خوبصورتی بنائی ہے۔اس کے پارک کسے خوبصورت ہے۔اس کی سٹرکے جو بہت اچھی بنائی گئی۔ضلع ٹوبہ کو دیکھ لے جو ضلع جھنگ کا حصہ ہوا کرتا تھا ۔آج وہاں جاکردیکھے تو شہر کو انہوں نے کیسی خوبصورتی دی ہے۔دیکھ کر رشک آتا ہے۔اگر اس لاوارث کا ضلع جھنگ کا کوئی وارث ہوتا ۔تو اس کی سڑکوں پر دھول مٹی نہ اڑرہی ہوتی۔جو ترقیاتی کام ہورہے ہے۔ایسے نہ ہوتے جیسا کہ اب کروائے جارہے ہے۔یہاں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو ان کا ضمیر بھی ملمت نہیں کرتا۔جیسے ان لوگوں کے ضمیر بھی مردہ ہو چکے ہو۔