تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا صحت نعمت کاملہ ہے۔ تعلیم اور صحت مند معاشرہ ہی کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی دلیل ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے اسلامی جموریہ پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے سے لیکر آج تک، جموری اور آمریت حکومتیں تبدیل ہوتیں رہیں مگر ملک عزیز کے باسیوں کو صحت جیسی بنیادی سہولت جیسا عوام کا حق بنتا ہے کسی بھی حکومت کو مہیا کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ جس کا اندازہ ہم منتخب وزیر ِ اعظم پاکستان سمیت اعلیٰ سیاسی شخصیات کے معمول کے چیک اپ سے بھی لگا سکتے ہیں، اسلامی جموریہ پاکستان کے وزیروں مشیروں کو ”گیس ٹربل ” بھی ہو تو وہ اپنا علاج تو درکنار ” چیک اپ” بھی یورپ امریکہ وغیرہ میں کرواتے ہیں۔
کیسی اعلیٰ پائے کی حکمت ہے کہ ووٹ اور ٹیکس پاکستانی عوام کا سہولیات امراء وزراء کی وہ بھی غیر ملکوں میں ۔ بندہ ناچیز کا تعلق ضلع گجرات کی تحصیل سرائے عالمگیر کے نواح پوران سے ہے اور ہمیں سرکاری ضلعی ہسپتال کی سہولیات سے مستیفد ہونے کے لئے گجرات گجرات 1.45 ایک گھنٹہ پنتالیس منٹ جبکہ جہلم کے لئے 30 سے 40 منٹ درکار ہے۔ اس لئے اور بحثیت صدر پریس کلب رجسٹرڈ جہلم اکثر و پیشتر جہلم جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔۔۔
سول ہسپتال جہلم میں آنکھوں دیکھا حال ! ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جہلم کا شعبہ امراض دل کی انوکھی پالیسی ، مریض کو گھنٹو ں انتظار کرنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب سے چیک اپ کے بغیر واپس جانا پڑتا ہے ۔روزانہ 20.سے 25 مریض پرچی کٹوانے کے باوجود چیک اپ کے بغیر مایوس واپس لوٹ جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جن خوش قسمت مریضوں کو چیک اپ کروانے کی سعادت نصیب ہوتی ہے وہ بھی مایوسی کے عالم میں واپس آتے ہیں مریضوں کے مطابق ڈاکٹر صاحب دل کے مرض کا فتویٰ تو جاری کرتے ہیں مگر ہاتھ تک نہیں لگاتے حتیٰ کہ مریضوں کا ٹیسٹ بھی نہیں کرواتے تا کہ شام کو پرائیوٹ ہسپتال میں مریضوں کا رش کم نہ ہو۔ شعبہ امرض دل میں جن مریضوں کو اندر سے ادویات لکھ کر دی جاتی ہیں ان کو بھی ” ٹرخا ” دیا جاتا ہیں کہ یہ ادویات ہسپتال میں موجود نہیں ایمرجنسی کو ہسپتال انتظامیہ نے ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹرز کے سپرد کر دیا۔
Jhelum Civil Hospital
ابتدائی علاج کیلئے استعمال ہونے والی ایمرجنسی ادویات بھی مریضوں کو میڈیکل سٹوروں سے خریدنے پر مجبورکیا جانے لگا۔شعبہ امراض دل مریضوں کے لواحقین نے ایمرجنسی میں ابتدائی علاج پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا، اور کہا کہ شعبہ ایمرجنسی کے عملہ کا مریضوں کے ساتھ رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ جو مریض بحث مباحثہ کرے اسے فوراً راولپنڈی ریفر کر دیا جاتا ہے۔جبکہ آن لائن ڈاکٹروں سے نہ تو مشاورت کی جاتی ہے، اور نہ ہی مریض کو سینئر ڈاکٹر چیک کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، سینئر ڈاکٹرز بغیر سفارش کے 2 بجے کے بعد مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں سے رجوع کرنے کا مشورہ دینا شروع کر دیتے ہیں، اس طرح ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں تعینات تمام ڈاکٹرز ہسپتال اوقات کے بعد نجی کلینکوں پر بیٹھ جاتے ہیں جہاں مریضوں کو چیک کرکے بھاری معاوضہ وصول کیا جاتا ہے۔
شعبہ ایمرجنسی میں بلڈٹیسٹ ایمرجنسی کی کوئی سہولت مہیا نہیں ۔ ،شعبہ ایمرجنسی میں روزانہ سینکڑوں سے زائد مریضوں کو طبی امداد کیلئے لایا جاتا ہے جن میں لڑائی جھگڑے اور روڈ حادثات کے زخمی بھی شامل ہوتے ہیں علاج کیلئے آنے والے مریضوں کے لواحقین نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ ہسپتال میں اخراجات بہت زیادہ ہیں جو ہم ادا نہیں کر سکتے، ایمرجنسی میں نا تجربہ کار ڈاکٹرز ہوتے ہیں اگر شکایت کی جائے تو ایمرجنسی سے باہر نکالنے اور پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دے کر مریضوں کے لواحقین کے منہ بند کر دئیے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی میں واک تھرو گیٹ تک نصب نہیں، تاہم سیکورٹی گارڈ مریضوں اور ان کے لواحقین کا تحفظ کرنے کی بجائے پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی طرف زیادہ توجہ دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مریضوں اور ان کے لواحقین کے سروں پر خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں اس صورت حال میں ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ ٹی بی وارڈ کی بجائے سول ہسپتال کے داخلی راستے کے ساتھ پولیس چوکی قائم کی جائے تاکہ شہریوں کو جان و مال کا تحفظ ممکن ہو سکے۔
زیادہ تر ڈاکٹر صاحبان کا مریضوں OPD دس بجے کے بعد شروع ہوتی ہے اور11:30 سے تقریباً12 بجے تک بریک جو عام جنرل اور سپیشلسٹ ڈاکٹرز صاحبان کا معمول ہے ، ڈاکٹر ز بھی انسان ہیں فرشتے نہیں مطلب بریک تو بریک ہے خواہ 30 منٹ سے 50 منٹ تک ہو جائے ۔ کوئی مائی کا لعل پوچھ نہیں سکتا ۔ اگر مان لیا جائے ڈاکٹرز بھی انسان ہیں تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں ،کون بتائے گا کہ وہ مریض جو صبح سویرے 8 سے 9 بجے کے قریب دھکے کھا کر اپنے دکھوں کے مداوے کے لئے پہنچ جاتے ہیں پھر پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی آج چھٹی ہے۔ دوسرے مریض کو بتایا جاتا ہے آج OPD نہیں بلکہ اپریشن ڈے ہے۔ آپ کلtomorrow تشریف لانا۔ کاش درد سے کراہتے ہوئے مریضوں کا احساس ہمارے دل میں پیدا ہو جائے۔ خیر اللہ اللہ کر کے پبلک ٹرانسپورٹ کے دھکے جھٹکے کھا کر نئی امید کے ساتھ مریض DHQ ہسپتال پہنچ کر اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنے لگ جاتا ہے۔
DHQ Hospital Jhelum
نمبر آتے آتے ” ٹی بریک ” خیر ایک بجے مریض ڈاکٹر صاحب کے کمرے سے نکل کر ” لیب” کا پوچھنے لگ جاتا ہے ۔۔۔ 1:30 لیب پہنچ کر سیمپل دیتے ہوئے 2:00 بج چکے ہوتے ہیں ۔ رپورٹ کب ملے گئی مریض نے لیب والوں سے پوچھا تو جواب ملا ایک گھنٹہ بعد ۔۔۔۔ اپنے دکھوں ، دردوں کی بھول کر گھنٹہ گزار کر مریض ” لیب ” سے رپورٹ لیکر ڈاکٹر صاحب کے کمرے کی طرف دردوں کے باوجود تیز تیز چلتا ہوا پہنچتا ہے تو آگئے ” کمرے کو تالا” لگا ہوا دیکھ کر چکرا جاتا ہے۔ بھوک پیاس اور تکلیف کا ستایا ہوا مریض ”دیوانوں کی طرح ” ہر کسی سے ڈاکٹر صاحب کا پوچھتا پھرتا ہے ۔۔ نا امید ہو کر واپس لوٹ آتا ہے۔ تھکاوٹ اور غربت کا مارا ہوا ایک بار پھر” نیم حکیم ” کے ہٹھ چڑ کر قسمت آزمائی کرنے کے بعد ” تکلیف میں شدت ” کے پیش ِ نظر پھر سول ہسپتال کا رخ کرتا ہے اور متعلقہ ڈاکٹر صاحب کے میز پر اپنی لمبی چوڑی فائل رکھ کر کی ”آہ” سی بھرتا ہے ۔۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہے آپ کو داخل ہونا پڑے گا۔ اندھے کو کیا چاہیئے آنکھیں ۔۔۔ مریض ایک بار پھر اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت مریض تصور کرنے لگ جاتا ہے کہ نامی گرامی ڈاکٹر صاحب نے مجھے داخل کر لیا ہے۔
مریض کے ہوش و حواس اس وقت جواب دینے لگ جاتے ہیں جب ضلع بھر کے اکلوتے ہسپتال میں ” پینے کا صاف پانی مریض کو میسر نہیں ایک لمحہ کے لئے مریض سوچتا ہے کہ یہ جہلم ہے ؟ یا کربلا؟ یہ کیسا ”ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتال جہلم ” ہے جہاں پانیتو پانی ۔۔۔۔۔۔ وارڑز میں صفائی ستھرائی کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں ۔۔۔ اور تو اور رفع حاجت کے لئے واش رومز میں صفائی نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ گندگی اور غلاظت امراض کو پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں ۔ ایسے ایک یا دو مریض نہیں بلکہ جو DHQ ہسپال جہلم کے ڈاکٹر ز سے پرائیویٹ علاج کرواتے ہیں ان کی کثیر تعداد ہیں، اگر پینے کا صاف پانی ، واش رومز کی صفائی کے لئے مخیر حضرات اورتنظیمیں نظر کرم کریں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دنیا میں جنت خریدنا ہے۔