جے آئی یوتھ کے ایک الیکشن کا مشاہدہ

Election

Election

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
پورے ملک میں جماعت اسلامی یوتھ موجود ہے۔ ان کے انٹرا پارٹی الیکشن ہونے کا چرچا بھی پورے زور شور سے ہو رہا ہے۔ان کے انٹراپارٹی الیکشن کی خبروں میں کمال درجے کے ڈسپلن اور خود ان ہی کے بنائے ہوئے ا لیکشن کے قواعد پر من وعن عمل کرنے کی باتیں بھی سنی جاتی تھیں۔ سنتے ہیں کہ نہ ہارنے والے نے جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں نہ جیتنے والے تکبر کا اظہارکرتے ہیں۔ دونوں سپورٹ شپ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح نہ تو سفارش پر امیدواروںکو مقابلے کی لیے ڈالا جاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی گروپئنگ نظر آتی ہے۔

الیکشن کے فائنل اعلان کے بعدزندہ اور جمہوری قوموں کے جوانوں کی طرح ایک بڑے مقصد کے حصول کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔نہ بے ہودہ نعرے سننے کو ملتے ہیں نہ ہی کسی کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ہاں الیکشن جیتنے کی خوشی میں امیدواروں کے گلوں میں پھولوں کے ہار ڈالے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے جلوس ضرور نکالتے ہیں۔ہمیں یہ ساری باتیں سن کر ان کی مدر سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کی عظیم المشان تنظیم اس کے دستور کے مطابق نیچے سے اوپر تک اس کے وجود میں آنے سے سے لے کر تاحال تسلسل سے الیکشن کی روداد سنتے رہے ہیں۔ بنیادی یونٹ سے لے کر ان کی جماعت کے امیر تک الیکشن مقررہ وقت پر منعقد ہوتے ہیں۔ان کے الیکشن کے قواعد کے مطابق کوئی بھی امیدوار اپنے آپ کو جماعت کے کسی عہدے کے لیے پیش نہیں کر سکتا۔ نہ ہی کسی قسم کی کنویسینگ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ نہ مال و دولت، خاندانی جاہ و جلال، نہ با اثر افراد اور ڈگریوں کی بنیاد پر کسی کو امیدوار بنایا جاتا ہے۔

امیدوار کی لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ تقویٰ کی بنیاد کو سامنے رکھ کر پیش کیا جاتاہے۔ جب جیتنے والے کی حلف برداری ہوتی ہے تو دیکھنے میں آیا ہے حلف پڑھتے وقت اس پر رکت تاری ہوجاتی ہے اور وہ زار و قطار رونے لگتا ہے کہ میرے سر پر ذمہ داری کا بھاری بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔صاحبو! پاکستان میں جماعت اسلامی کے الیکشن کلچر کی یہ ہلکی سے جلک ہم نے آپ کے سامنے اس غرض سے پیش کی ہے کہ آپ ذرا تھوڑی دیر رک کر جائزاہ لیں کہ کیا پاکستان کی کسی دوسری سیاسی یا مذہی پارٹی میں ایسا الیکشن کلچر ہے۔آپ اور میں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو ساری سیاسی اور مذہبی پارٹیاں مورثی ہیں۔

باپ کے بعد بیٹے یا بیٹی کو پارٹی کی سربرائی ملتی ہے۔ اوّل تو سیاسی پارٹیوں میں سرے سے الیکشن ہوتے ہی نہیں۔ پاکستان کے الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق اگر الیکشن کرانے بھی پڑیں تو عہدوں حاصل کرنے کے لیے الیکشن کی دوڑ میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ برائے نام الیکشن ہوتے ہیں۔دھن دولت ، خاندانی جاہ و جلال اور ڈگریوں کی بنیاد پر عہدے حاصل کیے جاتے ہیں۔ عہدے حاصل کرنے کے بعد فواعد حاصل کی جاتے ہیں۔ الیکشن میں کروڑ لگائو اور ارب کمائو کاکاروبار چلایا جاتا ہے۔ کرپشن کا بازار گرم رکھا جاتا ہے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کی جاتیں ہیں۔ اس وجہ سے ملک میں بے روزگاری ہے،مہنگائی ہے اور لوڈشیڈنگ ہے۔ ملک میں دہشت گردی بھی کرپشن سے کمائے ہوئے پیسے سے ہوتی ہے۔ سیاست دانوں نے کرپشن کا پیسا باہر ملکوں میں منتقل کر دیاہے۔ ان کی کاروبار اور پراپرٹیاں بھی باہر ملکوں میں محفوظ ہیں۔ سیاستدان، ان کے بچے اور ان کے سارے خاندان کے علاج باہر ملکوں میں ہوتا ہے اور عام پاکستانی شہری کو گورنمنٹ کی ہسپتالوں میں دوائی تک نہیں ملتی۔آج ملک ِ پاکستان کا ہر شہری ایک لاکھ سے زاہد کا مقروض بنا دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ قاہد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد سے آج تک جاری ہے۔کرپشن کی ہی وجہ سے ملک کی اعلیٰ عدالت عالیہ نے ملک کے وزیر اعظم کو تاحیات نا اہل قرارد دیا۔

ہمیں صحافی ہونے کی حیثیت سے تجسس تھا کہ ہم جماعت اسلامی کی سسٹر جے آئی یوتھ کے الیکشن دیکھیں۔ اور یہ دیکھیں کی کس طرح جماعت اسلامی نے گلی محلے کے وہ نوجوان جو جگہ جگہ ویڈیو دیکھتے، کھلی جگہوں کر کٹ کھیلتے اور ہلہ گلہ کرتے نظر آتے تھے وہ ایک ڈسپلن میں کیسے کس دیے گئے ہیں۔ تو ٢٠ اگست ٢٠١٧ء کو” تماشہ ہم بھی دیکھنے گئے مگر تماشہ نہ ہوا ”کے مصداق جے آئی یوتھ سیکٹر آئی ٹین فور اسلام آباد کے انٹرا پارٹی الیکشن کی کورنگ کے لیے گئے تو ہمیں حیرت ہوئی کہ جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے ان بچوں کی تربیت حیران کن حدتک کی ہے۔ جماعت اسلامی کے یوسی ٤٢ اور ٤٣ کے دونوں تنظیمی ناظم موجود تھے۔ علاقہ آئی ٹین کانظم بھی موجود تھا۔ایک وکیل کارکن کو الیکشن کرنے کا انچارج بنایا گیا جس نے خوش اسلوبی سے الیکشن کا سارا پروسس مکمل کیا۔ آئی ٹین ٹو کی مسجد سلمان فارسی کے بل مقابل گروئنڈ میں شامیانے اور قناتیں لگا کر الیکشن آفس بنایا گیا تھا۔ الیکشن میں تین پینلوں جن کے انتخابی شان مکہ، چاند اور گلاب تھا نے حصہ لیا۔ باہر فٹ پاتھ پر تینوں پینلوں کے الیکشن کیمپ شامیانے لگا کر بنائے گئے تھے۔ ان میں سے ووٹر لسٹ میں دیکھ کر سلپ بنا کر دے رہے تھے۔ صبح بجے سے شام پانچ بجے تک الیکشن جاری رکھنا کا طے ہوا تھا۔

تینوں پینلوں کی مشاورت سے یہ بھی طے ہوا تھا کہ جو ووٹر پہلے ووٹر لسٹ میں نام داخل کروا کر کارڈ حاصل نہیں کر سکے تھے وہ الیکشن کے ختم ہونے سے پہلے تک کسی بھی وقت اپنا نیشنل آئی ڈینٹی کارڈ جس پر آئی ٹین کا پتہ لکھا ہوا ہو اپنا نام ووٹر لسٹ میں لکھوا کر ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے۔ اس طرح جو بھی پانچ بجے تک الیکشن آفس کی حدود میں داخل ہو گیا وہ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے۔ ہمارے مشاہدے میں آیا کہ الیکشن انتظامیہ سے یہ کوتاہی ہوئی کی طرف ایک ہی پولنگ بوتھ بنائی گئی ۔ جب کہ ووٹوں کی تعداد ہزار سے زیادہ تھی اس کے لیے دو پولنگ بوتھ بنانا چاہیے تھا۔ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے قطار بنانے کے لوئوڈاسپیکر سے بار بار اعلان ہوتا رہا۔ ووٹروں نے قطاریں بنائی اورممکن حد تک ووٹرز نے انتظامیہ سے تعاون کیا۔ کوئی قابل ذکر ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ ہاں کچھ نوجوان آگے بڑنے کی وجہ سے آپس میںلڑپڑے لیکن الیکشن کرانے والے ذمہ داروں نے فوراً کنٹرول کر لیا۔ الیکشن آفس میں لوگوں کے پینے کے ٹھنڈے کولر رکھے ہوئے تھے۔

بجلی کے پنکھوں کاانتظام کیا گیا تھا۔ ووٹرزباہر سے تینوں پینلوں کے الیکشن کیمپوں سے پرچیاں جن پر نیشنل آئیڈنٹی کارڈ نمبر اور پتہ لکھا ہوا ہوتا لے کر اندر الیکشن آفس میں داخل ہوتے تو ایک طرف باہر سے پرچی لانے والے ووٹر کے لیے لسٹ سے ووٹ کا نام پتہ اور ایڈرس چیک کر کے بیلٹ حاصل کرنے کے لیے بچی جاری کی جاتی تھی۔ یہ پر چی پریڈائزنگ آفیس کے پاس لائی جاتی وہاں پر تینوں پینلز کے پولنگ ایجنٹوں کے سامنے ووٹ لسٹ میں چیک کر کے بیلٹ کی پشت پر اپنی مہر اوراپنے دستخط ثبت کر کے ووٹر کو بلیٹ پیپر جاری کیا جاتا ۔ ووٹر اندر پولنگ بوتھ پر رکھے ہوئے بیلٹ بکس میں خفیہ طور پر اپنے پسند کے پینل کے نشان پر مہر لگا کر اس پرچی کو بلیٹ بکس میں ڈال دیتا۔قواعد کے مطابق ١٥ سال سے ٤٠ سال تک کا ہر نوجوان جو آئی ٹین کا رہائشی بھی ہو ووٹ دینے کا حق دار تھا۔

ووٹنگ ختم ہونے کے بعد تینوں پینلوں کے صدر اور سیکر ٹیری کو اندربلایا گیا ان کے سامنے تین بلیٹ بکسوں میں ڈالے گئے ووٹ نکال کر گنتی کی گئی تو ٹوٹل ١٠٤٢ ووٹ ووٹ کاسٹ ہوئے۔ مکہ پینل کے مدو خان صاحب نے٦٠٥ ووٹ حاصل کیے،عمران مانی صاحب جس کا نشان گلاب تھا نے ٢٣٥ ووٹ حاصل کیے اورشفیع اللہ صاحب جس کاناش چاند ٹھا ١٦٠ ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے جناب مدوخان کو کامیاب قرارد دے دیا گیا۔ پینل کے صدر، سیکر ٹیری اور دوسرے عہدہ داروں نے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کا جلوس نکال کر ووٹروں کا شکریہ اد اکیا۔ اس طرح جے آئی یوتھ آئی ٹین اسلام آبادکا الیکش اپنے اختتام کو پہنچا۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ