چاہنے والے سلیقے سے جِیا کرتے ہیں زخم فرقت کے بھی چپ چاپ سِیا کرتے ہیں چاہنے والے سلیقے سے جیا کرتے ہیں زہر کا جام بھی پی کر تیرے سقراط یہاں زندگی کتنے زمانوں کو دیا کرتے ہیں عشق سا قافلہ سالار ملا جن کو بھی کام دنیا میں انوکھے ہی کیا کرتے ہیں جن کے قدموں میں پڑی رہتی ہے زنجیرِ وفا زہر یادوں کا بصد شوق پیا کرتے ہیں اتفاقاً کبھی محفل میں جو ہو ذکر تیرا ساتھ میرا بھی سبھی نام لیا کرتے ہیں