فلسطینیوں پر ظلم بربریت ایک صدی سے جاری ہے، اب جہاں اسرائیل آباد ہے، وہاں صدیوں تک فلسطین آباد تھا، مسلمان تھے، اسلام کا بول بالا تھا، اسلام تو اب بھی قائم ہے مقدس مسجد اقصی یہاں آباد ہے، پھر ساری دنیا بھر سے پلید یہودی اس مقدس سرزمین پر آباد ہونے لگے، مقامی فلسطینیوں سے اونے پونے داموں میں ان کی جائیدادیں خرید لیں۔
فلسطینیوں کو کیمپوں میں دھکیل دیا گیا، اور پلید اسرائیل کا علم چار سو لہرانے لگا، جب دنیا میں چیخ و پکار مچی تو چند کونسلوں پر مشتمل ایک علاقہ فلسطینیوں کے لیے مختص کر دیا، اب یہ بھی اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔
اسرائیل جب چاہتا ہے دہشت گردی ظلم بربریت شروع کر دیتا ہے، فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری شروع کردیتا ہے، ان دنوں بھی اسرائیل پر وحشت طاری ہے، اسکے خونی بمبار چند روز سے فلسطینیوں کے گھروں جان و املک پر بموں کی بارش کررہے ہیں، فلسطین کے شہر گلی کوچے بازار اور ہسپتال خون سے تر ہیں، معصوم فلسطینی اپنے پیاروں کی لاشوں اور زخمیوں کو لے لے کر دوڑ رہے ہیں، ظالم اسرائیل کہتا ہے کہ وہ حماس کے خلاف کارروائی کررہا ہے، ظالم اسرائیل حماس کے نام پر قتل و غارت خون ریزی کررہا ہے۔
سویلین نقصان کر رہا ہے، یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن ضرب عضب کا بدلہ لے رہا ہے، اب یہ بھی خدشہ ہے کہ بھارت پر کبھی بھی وحشت طاری ہوجائے اور وہ کشمیریوں پر آگ برسانے لگا جائے، کیونکہ شمالی وزیرستان میں ان کی پیدا وار ظالمانوں کو جہنم رسید کیا جا رہا ہے، ان جہنمیوں کو بھارت اور اسرائیل کی پشت پناہی حاصل ہے، اور پاک فوج کے جوان اللہ کے فضل سے ان کا کچومر نکال رہی ہے، اور اوراب آپریشن ضرب عضب کے ڈر سے ظالمان انکا سرغنہ فضل اللہ شاہد اللہ شاہد راہ فرار ہوچکا ہے، یہ بہادر نہیں ہے یہ تو بزدل اور بگھوڑے لوگ ہیں، یہ دشمن اسلام ہیں۔
Palestine
پہلے فلسطین کے لیے گول میز کانفرنسوں کا انعقاد ہوا کرتا تھا، شاعر مشرق علامہ اقبال اس میں شریک ہوا کرتے تھے، مولانا محمد علی جوہر مسجد اقصی کی دیواروں کے سائے میں دفن ہوئے، اور لا تعداد جنگیں صلاح الدین ایوبی اور اسلامی سپہ سالاروں نے اس مقدس ارض کے لیے لیڑیں، ہماری نئی نسلوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے مگر یاسر عرفات صدر ناصر حافظ الا اسد صدر سادات اور شاہ حسین ہزیمتوں کے سپاہ سالار نکلے، شاہ فصل آنسو بہاتے رہ گئے، شاہ فصل نے کشمیریوں کی بد قسمتی پر بھی شاہی مسجد لاہور کے کشادہ صحن میں آنسو بہائے تھے، اور اب میرا قلم خون کے آنسو رو رہا ہے، دل چھلنی ہے۔
فلسطینی مر رہے ہیں ان کے گھروں پر وحشیانہ بمباری کی جارہی ہے، مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہورہے ہیں، عمارتیں اوندھے منہ گررہی ہیں، ان کے مکیں لقمہ اجل بن گئے ہیں، گوگل پر سرچ کرو اور اسرائیل کی حالیہ وحشیانہ دہشت گردی سے کتنے معصوم بچے عورتیں مرد شہید ہورہے ہیں آپ کے سامنے چیتھڑے بنی لاشوں کے ڈھیر دیکھنے کو ملے گا، اگر آپ یہ سب منظر دیکھ کر برداشت کرلو گے تو پھر آپ پتھر دل ہونگے، تمام عربی اور یورپی اخباروں نے اسرائیل کی وحشیت کو بے نقاب کیا ہے، ان اخبارات کا مقصد حق اور صداقت کا ساتھ دیتے ہوئے رپورٹنگ کرنا نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی دھاک بیٹھانا مقصود ہے، جو اس کی راہ میں آئے گا مارا جائے گا، وہ کسی نے کہا ہے نا کہ یہ ترانہ ہم نے لکھا اور گایا،،،، اور اس پر عمل دہشت گرد اسرائیلی فوج کررہی ہے۔
اسرائیل کا فلسطین پر الزام ہے کہ انہوں نے حملے میں پہل کی اور اسرائیل پر 40 سے زاہد راکٹ داغے جو بیت المقدس کے نواح میں جا گرے پر اسرائیل خود کہہ رہا ہے کہ ان میزائلوں سے میرے شہریوں کا رتی بھر بھی نقصان نہیں ہوا، اور ان میزائلوں کے جواب میں اسرائیلی فوج نے معصوم فلسطینیوں پر بموں کی بوچھاڑ کردی، چند روز سے جاری اب تک کی اطلاعات کے مطابق کئی سو گھروں کو تباہ برباد کردیا دو سو کے قریب معصوم بے قصور فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا، ہزار کے قریب زخمی ہے، ان میں اکثریت سویلین کی ہے۔ المغادی کے مہاجر کیمپ پر ایک میزائل داغا گیا جس سے ایک ماں اپنے چار بچوں سمیت ابدی نیند سوگئی یہ منظر دیکھ کر مجھے سکتا طاری ہوگیا اور سر میرا چکرانے لگا۔ ہزار کے قریب زخمی اشفا ہسپتال میں ہے، اشفا ہسپتال جو چند دن پہلے ایک پرسکون اور صاف ستھرا منظر پیش کر رہا تھا۔
اب اس کے باہر ایمبولینسیں چنگھاڑ رہی ہے، راہداریاں زخمیوں اور ان کے لواحقین سے اٹی پڑی ہے، فرش خون میں لت پت ہے، مردہ خانوں میں میتیں رکھنے کی جگہ نہیں رہی، ابھی قیامت ختم نہیں ہوئی، سلسلہ ظلم جبر بربریت جاری ہے، پلید اسرائیل دھمکی لگا رہا ہے، زمینی آپریشن کے لیے چالیس ہزار زمینی فوج کو غزہ میں داخل کر چکا ہے، معصوم فلسطینی زمینی آپریشن کا مطلب جانتے ہیں، دو سال قبل بھی اسرائیل نے ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑے تھے، اور چودہ سو فلسطینیوں کو ابدی نیند سلادیا گیا تھا، جس میں زیادہ تر تعداد بچوں اور خواتین کی تھی، اسرائیلی انٹلیجنس منسٹر نے دھمکی دی ہے کہ کچھ عرصے کے لیے غزہ پر ٹیک اوور کرنا پڑا تو اس سے گریز نہیں کریں گے، چاہے اس کی جو بھی قیمت چکانی پڑے، مگر اب کیا کیا جائے غزہ کے بچوں کو رویا جائے یا عراق میں خلافت قائم کرنے والے ابو بکر البغدادی کو رویا جائے، یا فاٹا کے امیر المومنین ملا فضل اللہ کو رویا جائے، یا لال مسجد کے غازی صاحب کو رویا جائے، یا وزیرستان کے ظالمانوں کے امیر المومنین شاہد اللہ شاہد کو روئوں یا کشمیری بچوں اور فلسطینی بچوں کے لیے روئوں، کیا ہماری زندگی رونے دھونے اور ماتم کرنے کے لیے ہے۔
Israel
ایک کربلا کے بعد دوسری کربلا۔ اب فلسطین کو آزاد کرانے والا کوئی صلاح الدین ایوبی باقی نہ رہا، نہ ہندو لالے کو سبق دینے والا کوئی محمد بن قاسم ابدالی غوری یا غزنوی، نہ یورپ کو للکارنے والا طارق بن زیاد، کہاں ہیں وہ فاتحین عالم اسلام جنکے گھوڑوں کی ٹاپوں سے بجلیاں لشکارے مارتی تھیں، عالم اسلام کی ایٹمی قوت کب اور کس کے کام آئے گی، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے والے جہاد کی اہمیت کو کیا جانے بھارتی قصاب نریندر مودی سے کشمیری شال کا تحفہ قبول کرنے والے کیا جانے، کہاں ہیں وہ جہاد جہاد کی رٹ لگانے والے جہادی؟ کیا انہیں سانپ سونگھ گیا؟ کہاں ہیں داعش اور طالبان خنزیر کے بچے؟ انہوں نے مسلمان ملکوں انکی عوام اور فوج کے خلاف ہی جہاد کرنا ہے، تاکہ وہ کہیں فارغ ہوکر اسرائیل کی طرف نہ دیکھ لیں، ارے بھائی لوگوں انہیں اسرائیل نظر کیوں نہیں آتا۔