تحریر : پروفیسر رفعت مظہر عبادتوں، رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کا ماہِ صیام آج اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا ۔حتمی فیصلہ تو آج شام کو ہی ہوگا لیکن محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی کے مطابق سوموار 26 جون کو عید الفطر ہو گی اِس لیے اپنے تمام قارئین کو پیشگی عید مبارک۔ ویسے اگر ہم پشاور میں مسجدقاسم کے گرد ونواح میں ہوتے تو جب جی چاہتا ،عید منا لیتے کیونکہ قاسم مسجد کے مہتمم مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے پاس چاند کا اچھا بھلا سٹاک موجود ہے اور وہ بوقتِ ضرورت اور حسبِ ضرورت ”چاند چڑھاتے ” رہتے ہیں، البتہ رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن کے خیال میں ”چاند چڑھتا ہے تو سب کو نظر آتا ہے”۔ بہرحال یہ ہمارے علماء کی باہمی چشمک ہے جس پر ضرورت سے زیادہ بات کرنے کی صورت میں کفر کا فتویٰ بھی لگ سکتا ہے اِس لیے اِس مسٔلے کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔
معزز قارئین ! مسلمان تو وہ ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے ۔ہم کسی ایسے شخص یا گروہ کو کیسے مسلمان مان لیں جو بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ 23 جون کو ماہِ رمضان کا جمعہ الوداع تھا اور لیلةالقدر تھی۔ یہ وہ دِن ہے جس کی رات کی عبادت قُرآنِ مجید فرقانِ حمید کے مطابق اَسّی سالوں کی عبادتوں سے بھی افضل ہے ۔ اِس دِن وحشی درندوں نے پاکستان میں پارا چنار کوئٹہ اور کراچی میں میں خودکُش حملے اور بم دھماکے کیے جِن میں گیارہ پولیس اہلکاروں سمیت باسٹھ بے گناہ افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ۔کراچی میں چار پولیس اہلکاروں کے سروں میں اُس وقت گولیاں ماری گئیں جب وہ افطاری میں مصروف تھے ۔ یہ کام کسی مسلمان کا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ اِن دھماکوں میں بھارت ملوث ہے ۔ہم بھی وثوق سے کہتے ہیں کہ اِن دھماکوں کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کا ہی ہاتھ ہے جو نام نہاد مسلمان گروہوں (طالبان اور داعش ) کے ذریعے افراتفری پیدا کرنے کے ایسے منصوبے بناتی رہتی ہے ۔ ویسے ”را” کو اتنی تَگ ودَو کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم اِس معاملے میں خود کفیل اور افراتفری پیدا کرنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
یہ بہانے کبھی ڈان لیکس کی صورت میں سامنے آتے ہیں تو کبھی پاناما لیکس کی صورت میں ۔اگر کوئی بھی بہانہ نہ ملے تو 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا گھڑاگھڑایا بہانہ تو بہرحال موجود ہی ہے۔ یہ ایسا بہانہ ہے جس نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچایا جتنا شاید گزشتہ ساٹھ سالوں میں بھی نہیں پہنچا ہوگا لیکن ہمیں اِس سے کیا ، ہمیں تو اقتدار چاہیے ،خواہ وہ کسی بھی طریقے سے ملے، ملکی سلامتی جائے بھاڑ میں۔ کپتان صاحب نے عید کے بعد سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ پیپلزپارٹی نے اُن کو ”نہال” کر دیا کیونکہ پیپلزپارٹی کے چوٹی کے تقریباََ تمام رہنماؤں کا بہاؤ تحریکِ انصاف کی طرف ہوگیا ہے۔ صمصام بخاری اور راجہ ریاض تو پہلے ہی تحریکِ انصاف میں شامل ہو چکے تھے اب نورعالم ،نذرگوندل ،امتیاز صفدر وڑائچ ،فردوس عاشق اعوان ،اور بابراعوان بھی تحریکِ انصاف کے ہو رہے۔ باقی بچے قمرالزماں کائرہ ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ سیاست تو چھوڑ سکتا ہوں ،پیپلز پارٹی نہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اپنے عروج کے زمانے میں کپتان صاحب نے کہا تھا کہ اُن کی جماعت صرف ایسے لوگوں کے لیے ہے جن کا دامن صاف ہو ۔ویسے تو تحریکِ انصاف پہلے ہی ایسے بڑے بڑے مگرمچھوں کی آماجگاہ ہے جن کی ”تَردامنی” کا ایک عالم گواہ لیکن اب تو سونے پہ سہاگہ ہو گیا۔ جس جماعت میں بابر اعوان جیسے لوگوں کو بھی خوش آمدید کہا جائے ،اُس کا کیا عالم ہو گا۔ یہ وہی ”ڈاکٹر” بابر اعوان ہے جس کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایسی یونیورسٹی کی ہے جس کا دنیا میں کہیں وجود نہیں۔ یہ وہی بابر اعوان ہے جو بھٹو کی پھانسی کے بعد راولپنڈی کی عدالتوں میں ضیاء الحق کا ”بیج” سینے پر سجائے اتراتا پھرتا تھا ۔یہ وہی بابراعوان ہے جو ضیاء الحق کے دَور میں پیپلزپارٹی کو ننگی اور گندی گالیاں دیا کرتا تھا۔ پھر یہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوا اور حیرت ہے کہ پارٹی نے اِسے قبول بھی کر لیا۔اب وہی بابراعوان تحریکِ انصاف کا چمکتا ،دمکتا ستارہ بن کر اُبھر رہا ہے۔ یقیناََ تحریکِ انصاف کے ترجمان فواد چودھری کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہوگا ،جن کی ”ترجمانی ” اب ڈانواںڈول ہے۔ ویسے فوادچودھری کا ماضی بھی بابراعوان کے ماضی سے ملتا جُلتا ہی ہے۔ وہ بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے ہیں۔اب دیکھتے ہیں کہ دونوں میں سے جیت کِس کے حصّے میں آتی ہے۔ پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والے باقی سیاستدانوں کا ماضی بھی اِنہی سے ملتا جُلتا ہے لیکن اِن کے بارے میں پھر کبھی، کہ اِس مختصر سے کالم میں اتنی گنجائش نہیں۔ سیّد مشاہد حسین پیپلزپارٹی کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اِس پارٹی کا نعرہ ”لُٹّو تے پھُٹّو” ہے۔
اب تقریباََ تمام پارٹی تحریکِ انصاف میں ضَم ہو چکی اِس لیے کیا سیّد مشاہد حسین تحریکِ انصاف کے بارے میں بھی یہی ”نعرۂ مستانہ” بلند کریں گے؟۔ ویسے تو تحریکِ انصاف میں بڑے بڑے ارسطو اور افلاطون جمع ہیں جِن کو کوئی مشورہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن پھر بھی کہے دیتے ہیں کہ اب پی ٹی آئی کا نام بدل کر ”پی پی ٹی ” یعنی پاکستان پیپلز تحریک رکھ دینا چاہیے کیونکہ اب پی پی پی اور پی ٹی آئی میں کچھ فرق نہیں رہا۔اب لوگ تحریکِ انصاف کی بھی ”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں” سنایا کریں گے۔
اُدھر پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے بنی جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کی اُلٹی گنتی شروع ہو چکی۔ 10 جولائی کو یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی جائے گی ۔کچھ لوگ غلط فہمی میں ہیں کہ شاید اِس رپورٹ کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے فوراََ فیصلہ کر دیا جائے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔رپورٹ پیش ہونے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نیا بنچ تشکیل دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ موجودہ جج صاحبان میں سے کوئی بھی اُس بنچ کا حصّہ نہ ہو۔ اِس کے بعد نئے بنچ کے سامنے مقدمے کی کارروائی شروع ہو گی اور وکلاء اپنے دلائل دیں گے ۔ اِ س لیے کہا جا سکتا ہے کہ فیصلہ ابھی دور ہے ۔کپتان کا سڑکوں پر آنے کا بظاہر تو یہی مقصد نظر آتا ہے کہ وہ عدلیہ کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کا یہ ”طریقۂ واردات” ہم 2013ء سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن یہ طریقہ اتنا گھِس پِٹ چکا ہے کہ اب شاید اِس کا اتنا اثر نہ ہو جتنا ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ فیصلہ تو بہرحال ثبوتوں اور شہادتوں کو مدّ ِنظر رکھ کر ہی ہو گا اور اگر ثبوت رحمٰن ملک جیسے لوگ پیش کریں گے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ قُربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جے آئی ٹی کو پہلے تو رحمٰن ملک ہی سے پوچھنا چاہیے کہ وہ ایف آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے سے ترقی کرکے ارب پتی کیسے بنے اور آف شور کمپنیاں کیسے بنائیں؟۔
کیا سترھویں گریڈ کے اِس آفیسر کے ہاتھ قارون کا خزانہ لگ گیا تھا جو وہ راتوںرات اَرب پتی بن گئے؟۔ ویسے یہ رحمٰن ملک ہیں بہت کائیاں۔ یہ وہی صاحب ہیں جو بھٹو کی پھانسی پر ”چودھری برادران” کے گھر مٹھائی کا ٹوکرا لے کر پہنچ گئے تھے۔ پھر یہی رحمٰن ملک پیپلزپارٹی میں سب سے مضبوط وزارتِ داخلہ کے حقدار ٹھہرے۔ رحمٰن ملک کے بارے میں یوسف رضا گیلانی کہا کرتے تھے” میں ساری کابینہ کا وزیرِاعظم ہوں لیکن رحمٰن ملک کا نہیںکیونکہ وہ مجھ سے زیادہ طاقت ور ہے”۔ اب یہی رحمٰن ملک 19 سال پرانی رپورٹ جے آئی ٹی کو ”بیچنے” آئے ہیں۔ یہ وہ رپورٹ ہے جسے میاں برادران کا بَدترین دشمن پرویز مشرف بھی مسترد کر چکا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ جے آئی ٹی اِس رپورٹ کو کھنگال کر کون سا ثبوت سامنے لاتی ہے۔