تحریر : پروفیسر رفعت مظہر جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سامنے آ گئی۔ دَس جِلدوں اور سینکڑوں صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ کھڑاک پہ کھڑاک کیے جا رہی ہے۔ چھوٹے بڑے سارے سیاستدان تلواریں سونت کر باہر نکل آئے ہیں اور زبانوں کے گھاؤ گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاست پر بات بعد میں، پہلے کچھ اِس رپورٹ کی مقبولیت کے بارے میں ۔ اِس رپورٹ کے منظرِعام پر آتے ہی دنیا اِس کو خریدنے کے لیے ٹوٹ پڑی ۔ اِس رپورٹ کی فی جلد قیمت 500 روپے مقرر کی گئی ہے اور عالمی سفارتخانے بھی اِسے دھڑادھڑ بازار سے خرید کر اپنے ملکوں کو بھیج رہے ہیں۔دروغ بَر گردنِ راوی گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ والے جے آئی ٹی کی منتیں تَرلے کر رہے ہیں کہ اِس رپورٹ کو اُن کے ریکارڈ کی زینت بنانے کی اجازت دی جائے لیکن تاحال جے آئی ٹی نخرے ہی دکھا رہی ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ رپورٹ 2017ء کی ”بیسٹ سیلر” بن جائے گی ۔ اِس رپورٹ کی دسویں اور آخری جلد کو ابھی خفیہ رکھا گیا ہے ۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ جب لوگوں کا شوق اپنی انتہاؤں کو چھونے لگے تو پھر اِسے منظرِعام پر لایا جائے تاکہ ڈھیروںڈھیر دَھن کمایا جا سکے ۔ ہماری سمجھ میں تو اِس رپورٹ کی مقبولیت کی ایک ہی وجہ آتی ہے کہ ہماری محترم جے آئی ٹی نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسی داستان مرتب کی ہے جس میں دور دور تک ”سَچ” کی آمیزش نہیں۔یہ ایسی پاکیزہ رپورٹ ہے جو سَچ کی ”الائشوں” سے پاک ہے اور چونکہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اِس لیے یہ ”میٹھی میٹھی” رپورٹ اپوزیشن کے مَن کو بہت بھائی ہے۔
اِسی لیے اپوزیشن اِس پر بغلیں بھی بجا رہی ہے اور خوشی کے شادیانے بھی۔ شنید ہے کہ تحریکِ انصاف اِس رپورٹ کی خوشی میں ایک ”میوزیکل کنسرٹ ” کا اہتمام کر رہی ہے جس میں” سونامیے ”ملک کے تمام نامی گرامی گلوکاروں کی ”لائیو پرفارمنس”سے لطف اندوز ہو سکیں گے ۔ ہمارا حکمرانوں کو مشورہ یہ ہے کہ وہ جے آئی ٹی کو ”کاروباری قالب” میں ڈھال دیں تاکہ پاکستان میں دولت کی ریل پیل ہو جائے۔ اِس کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے تو عمران خاں اورآصف زرداری کے خلاف جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اور اُس میں ایسے اراکین منتخب کیے جائیں جو موجودہ جے آئی ٹی سے بھی کہیں زیادہ سخت اور متعصب ہوں ۔ایسے لوگوں کی تلاش میں رانا ثناء اللہ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسی بنائی جانے والی ”جے آئی ٹیاں” مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ کے رکھ دیں گی۔ اِس کامیابی کے بعد چھوٹی چھوٹی کئی اور ”جے آئی ٹیاں” بھی بنائی جا سکتی ہیں ۔اگر یہ سلسلہ کامیابی سے چل نکلا تو پھر ہم سی پیک سے ہونے والی مجوزہ آمدنی کو بھی بھول جائیں گے۔ ویسے اِس افراتفری کے ماحول میں کہاں کی سی پیک اور کیسی سی پیک۔ یہ ”چونچلے” تو اُس وقت کارآمد ہوتے ہیں جب راوی ملک میں چین ہی چین لکھتاہولیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ ”اِس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے”۔
اب پلٹتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ ہم نے اپنے اِس کالم کا جو عنوان باندھا ، وہ ہے ”چیونٹیوں کے بھی پَر نکل آئے۔ ہمارا ارسطوانہ ذہن ہمیں بار بار” شاباش” دے رہا ہے کہ ہم نے کیا خوب عنوان باندھا ہے ۔دیکھیں ناں ! کہ ”چھاج بولے تو بولے ،چھلنی بھی بولتی ہے”۔ کپتان تو گزشتہ چار سالوں سے نوازلیگ سے” گُتھم گُتھا” ہے ،اِس لیے اُس کا تو بولنا سمجھ میں آتا ہے لیکن یہاں تو ایم کیو ایم کے فاروق ستّار بھی وزیرِاعظم نواز شریف کے استعفے کے طلبگار ہیں ۔فاروق ستّار شاید یہ بھول گئے کہ اُن کی جماعت پر سے غداری کا لیبل تازہ تازہ اُترا ہے ۔اُنہوں نے ساری زندگی غدار الطاف حسین کی ”چاکری” کی ہے اوراُس کے ہر حکم کی بجا آوری کو اپنا فرضِِ عین سمجھا۔ ایم کیو ایم کے مظالم کی تاریخ میں مظلوموں کے خون کے چھینٹے فاروق ستّار کے دامن پر ابھی تازہ ہیں۔ ایم کیو ایم نے کیا کیا ظلم ڈھائے ،بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” سے اُس کی کیسے فنڈنگ ہوئی اور بھارت میں اُس کے کارکنان کی کیسے تربیت ہوئی ،اِن سب کے بارے میں فاروق ستّار سے بہتر کون جان سکتا ہے ۔ اِس لیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ اپنی زبان کو لگام دیں کیونکہ اُنہیں لٹکانے کے لیے تو کسی جے آئی ٹی کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔
بینظیر شہید کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں آصف زرداری کو ”مسٹر ٹین پرسنٹ” کہا جاتا تھا اور دوسرے دَور میں ”مسٹر سینٹ پرسینٹ”۔ بینظیر کی شہادت کے بعد جب ایک ”جعلی وصیت” کے زور پر زرداری اقتدار میں آئے تو پھر ”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں” دھڑادھڑ سامنے آنے لگیںاور مشاہد حسین سیّد کو کہنا پڑا کہ پیپلزپارٹی کا تو نعرہ ہی ”لُٹّو تے پھُٹو” ہے۔ یہ زرداری صاحب ہی کے ”کرتوت” ہیں جن کی بنا پر وہ پارٹی ،جسے ضیاء الحق جیسا سخت مزاج آمر ختم نہ کر سکا ،آج سُکڑ سمٹ کر صرف دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اب بلاول زرداری (جِسے جعلی بھٹو بنا کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی) کہتے ہیں کہ نوازشریف مجرم ہے ،وہ استعفیٰ دے کر گھر جائے ۔اگر یہ نہ ہوا تو ہم اُسے خود نکال باہر کریںگے۔ اُس ”سیاسی بچونگڑے” کو شاید یہ بھی علم نہیں کہ اُس کی ساری جماعت تو تحریکِ انصاف میں ڈَھل چکی ہے ۔ ایک قمرالزماں کائرہ ہی تو باقی بچا ہے یا پھر دو پِٹّے ہوئے مہرے ، یعنی راجہ رینٹل اور ملتان کا گدّی نشیں۔ بلاول کو چاہیے کہ وہ قمرالزماں کائرہ کو ”سینت سنبھال” کر رکھے ۔ اگر وہ بھی ”پھُر” ہو گیا تو پھر ”’گلیاں ہو جان سُنجیاں، وِچ مِرزا یار پھرے” جیسا ماحول ہو جائے گا ۔ ویسے بلاول کو اپنے باپ سے مشورہ کر لینا چاہیے کیونکہ صرف وہی اُسے بتا سکتے ہیں کہ نوازلیگ کے پاس زرداری خاندان کی بَدعنوانیوں کے کتنے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ ہمیں تو ”خادمِ اعلیٰ” پر رہ رہ کر غصّہ آتا ہے جو کہا کرتے تھے ” اگر زرداری کو گلیوں میں نہ گھسیٹا تو میرا نام نہیں”۔ لیکن جب مرکز اور دو صوبوں میں اُن کا حقِ حکمرانی ٹھہرا تو وہ قوم سے کیا گیا اپنا یہ وعدہ یکسر بھول گئے ۔ شاید یہ اُسی وعدہ خلافی کی سزا ہے جو آج شریف خاندان کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔
ہم تو سمجھتے تھے کہ وکلاء برادری عدل کی حکمرانی کے لیے یکسو ہے لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سُنا افسانہ تھا”۔ آج وکلاء یہ کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف سات دنوں میں مستعفی ہوں ورنہ ملک گیر تحریک چلائی جائے گی ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا میاں نوازشریف اور اُن کا خاندان مجرم ثابت ہو چکا؟۔ کیا وکلاء عدل کے ایوانوں میں ایسے ہی فیصلے کرواتے ہیںکہ کسی” ملزم ” کو سُنے بغیر ہی سزا دلوا دی جائے؟۔ لیکن شاید وکلاء اِس زعم میں ہیں کہ اُنہوں نے ملک گیر تحریک چلا کر افتخار چودھری سمیت تمام ججز کو بحال کروا لیا تھا ،اِس لیے وہ نوازشریف کو بھی گھر بھیج سکتے ہیں لیکن یہ اُن کی غلط فہمی ہے کیونکہ وہ معاملہ یکسر مختلف تھا اور پوری قوم ایک آمر کے خلاف متفق و متحد۔ عدلیہ بحالی تحریک میں نوازلیگ صفِ اوّل میں تھی اور میاں نوازشریف اُس کے سربراہ ،جنہوں نے 2008ء کے انتخابات میں اپنے تمام ”ٹکٹ ہولڈرز” سے یہ حلف لیا تھا کہ اگر وہ جیت گئے تو عدلیہ بحالی تحریک میں بھرپور حصّہ لیں گے ۔ یہ وہی نوازشریف ہیںجنہوں نے عدلیہ بحالی کے لیے اپنی پنجاب کی حکومت قُربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیااور اپنی جان کے خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گھر سے نکلے اور عدلیہ بحال کروا کے ہی دَم لیا۔ آج وکلاء اُسی نوازشریف کو کمزور سمجھ کر دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں۔ شاید نوازشریف کو کمزور سمجھتے ہوئے اُن کے نزدیک معاملہ کچھ یوںہے کہ
دیوار کیا گِری میرے کچے مکان کی لوگوں نے میرے صحن میں رَستے بنا لیے
لیکن ایسی بھی کوئی بات نہیں ، آج بھی ”محبانِ نوازشریف” اَن گنت اور وہ خود ڈَٹ کر میدان میں کھڑا ہے ۔ہم وکلاء برادری کو یہی کہہ سکتے ہیں کہ تڑپنے ،مچلنے کی بجائے تھوڑا صبر سے کام لیں اور سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔ اگر وہ سپریم کورٹ کے کسی بھی حکم سے پہلے ہی نواز مخالف تحریک پر بضد ہیں تو پھر ہمارا اُنہیں مشورہ ہے کہ وہ پہلے ”عدلیہ خاتمے” کی تحریک چلا کرپاکستان سے عدل کا خاتمہ کر دیں اور خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بَن جائیں۔