تحریر : قادر خان یوسف زئی مملکت خداداد پاکستان میں اس وقت آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے اور عوام فریقین کی جانب سے پانامہ کیس پر برقی میڈیا کو دیئے جانے والے روزانہ کی بنیاد پر ٹکرز ،تبصروں ، پریس کانفرنسوں اور تقاریر سمیت ٹاک شوز اور خبر ناموں میں یکسانیت سے سخت نالاں ہیں ۔ عوام اس وقت کو یاد کررہی ہے جب ایک ہی سرکاری چینل ہوتا تھا اور پروگرام پسند نہ آنے پر ٹی وی بند کرکے سکون سے سو جایا کرتے تھے ۔ لیکن ساس ، بہو کے گھریلو جھگڑوں کے غیر ملکی ڈراموں سے لیکر ملکی سیاسی ڈراموں کے اس مرحلے پر نیوز چینلز دیکھنے والا ایسا کوئی فرد نہیں جو ڈیپرشن کا شکار نہیں ہوا ہو گا۔ تفریحی پروگراموں میں عوام کو بھارتی ذائقے کی لت لگ چکی تھی اس لئے پابندیوں کے بعد یکسانیت کا شکار پاکستانی چینلز پر نشر کئے جانے والے ڈرامے و فلمیں تفریح مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔
پانامہ کیس جب سے شروع ہوا اس وقت سے لیکر اب تک صرف ایک بات عوام کے حق میں گئی تھی کہ تحریک انصاف کی جانب سے لاک ڈائون کی کال کے بعد اسلام آباد اور خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلے پر پولیس یلغار کے بعد صورتحال انتہائی ناگفتہ حال ہوچکی تھی ، اُس وقت عدلیہ نے مداخلت کرکے سب کو محفوظ راستہ فراہم کرکے بڑے جانی نقصانات سے عوام کو بچا لیاتھا۔تاہم بعد میںتقریباََ تمام سیاسی جماعتوں کا سپریم کورٹ کو حق اختیار دینے کے بعد عدلیہ کے گیٹ پر روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کے ذریعے اپنے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے میں جُت جانے سے عوام کو منتشر ِخیال ہوگئے ۔ متواتر سماعتوں کے بعد جب مرحلہ جے آئی ٹی کا آیا تو کسی نے اُن پر تحفظات کا اظہار کیا اور وزیر اعظم سے استعفا مانگا کہ وہ جے آئی ٹی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں تو حکمران جماعت نے مٹھائیاں تقسیم کیں کہ عدلیہ کے اکثریتی فیصلے نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار نہیں دیا ۔ جے آئی ٹی بننے کے بعد جیسے جیسے صورتحال واضح ہوتی چلی گئی اور حکمران خاندان کو اندازہ ہوا کہ جے آئی ٹی کا رویہ اور ان کی تفتیش کا شکنجہ لندن فلیٹس کے ساتھ ساتھ گھڑے مُردے بھی زندہ کرنے میں لگا ہوا ہے تب سے جے آئی ٹی پر سوالیہ نشان کھڑا کرنا شروع کردیا گیا۔
جے آئی ٹی کی حدود کیا ہیں اور وہ کن زاویوں سے کس طرح تفتیش کرسکتی ہے اور کیا جے آئی ٹی کی رپورٹس کو قانون شہادت میں کوئی حیثیت بھی حاصل ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ جس پر زیادہ بحث نہیں کی گئی ۔کیونکہ پہلے پہل جے آئی ٹیز پر ایم کیو ایم( متحدہ) کی جانب سے کراچی امن و امان کیس میں اجمل پہاڑی سمیت 23ایم کیو ایم کے کارکنان کی جے آئی ٹی ، عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اسفندیار ولی خان کے وکیل افتخار گیلانی ایڈوکیٹ اور حمید اللہ ایڈوکیٹ نے پیش کی تو میڈیا میں ایک بھونچال آگیا تھا اور عدلیہ کے جسٹس صاحبان خود حیران ہوگئے تھے کہ اجمل پہاڑی سمیت 23کارکنان کی جانب سے سنگین نوعیت کے انکشافات جس میں بھارت میں تربیت حاصل کرنے کا اعتراف بھی شامل تھا ۔ اس کے باوجود سو سو افراد کے قاتلوں اور ‘ را ‘ ایجنٹ کو سزا کیوں نہیں ملی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے سامنے میڈیا کو عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید نے تمام جے آئی ٹیز کتابی شکل میں تقسیم کیں ۔ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے ایک کارکن کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنی تھی ، لیکن اس کا اسٹیٹس وائٹ تھا ، جبکہ ایم کیو ایم کے کارکنان کی جے آئی ٹیز کا اسٹیٹس بلیک تھا۔
ایم آئی ، آئی ایس آئی ، رینجرز ، آئی بی ، اسپیشل پولیس اور تفتیشی پولیس کے افسران کے دستخط شدہ ان جے آئی ٹیز کو خفیہ رکھا گیاتھا ، لیکن مبینہ طور پر ذرائع کے مطابق سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے ان جے آئی ٹیز کی کاپیوں کو ایم کیو ایم مخالف جماعتوں میں تقسیم کئے ۔ لیکن صرف عوامی نیشنل پارٹی نے ہی ان جے آئی ٹیز کو عدلیہ اور میڈیا کے سامنے پیش کیا ۔اُ س وقت ایم کیو ایم ( متحدہ) کی جانب سے ان جے آئی ٹیز کو رد کیا جاتا رہا کہ اگر پولیس کو کوئی ہاتھی بھی دے دیا جائے تو وہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے بعد خود کو ہاتھی نہیں بلکہ بکری کہے گا ، تفتیش کے بعد کوئی بھی شخص نائن الیون کی تباہی کی ذمے داری بھی قبول کرسکتا ہے۔بعد ازاں کراچی آپریشن میں پی پی پی اور ایم کیو ایم سمیت کئی کالعدم تنظیموں کے کارکنان و رہنمائوں کو رینجرز نے خصوصی اختیارات کے تحت نوے روز کے ریمانڈ پر تحویل میں لینے کے بعد جے آئی ٹیز بنائی جاتی تو اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا جاتا ۔ جس طرح پی پی پی کے رہنما ڈاکٹر عاصم ، سابق رہنما عزیر بلوچ سمیت کئی کارکنان( لیاری گینگ وار) و رہنمائوں کی جے آئی ٹیز بنی تو اسے پی پی پی نے وفاقی حکومت کی جانب سے سیاسی انتقامی کاروائی قرار دیا گیا اور ان جے آئی ٹیز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ایم کیو ایم تو روز اول سے ہی انکار کرتی رہی ہے ۔ بلدیہ فیکڑی کی جے آئی ٹی کو پی ایس پی نے بھی مسترد کیا۔
پانامہ کیس میں بھی جے آئی ٹی بنی ، لیکن قانونی ماہرین موجودہ جے آئی ٹی کو دیگر جے آئی ٹی سے مختلف سمجھتے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق 1984 کے قانون شہادت آرڈیننس کے آرٹیکل38 کے تحت کسی بھی ملزم کا زیر حراست دیا گیا بیان عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتاـ شفافیت برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ملزم جج کے سامنے وہی اقبالی بیان دے جو اس نے دوران تفتیش دیا ہو – یہ بھی ذہن میں رہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے لئے تحقیقاتی افسر صوبائی یا وفاقی حکومت کو درخواست دے سکتا ہے – لیکن اگر اس نے کیس کا چالان عدالت میں پیش کر دیا ہے تو جے آئی ٹی تب تک نہیں بن سکتی جب تک عدالت حکم نہ دے . جے آئی ٹی ایک ایسی تحقیقاتی رپورٹ سامنے لاتی ہے جو تب تک ردی کا ٹکڑا ثابت ہوگی جب تک ملزم عدالت میں اعتراف جرم نہ کرے۔حکمران خاندان کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی کی تشکیل سپریم کورٹ نے کی ہے، دوسرے یہ کہ انھیں عدالت نے کریمنل پروسیجر کوڈ 1898، ایف آئی اے ایکٹ1975 اور نیب آرڈیننس 1999 کے تحت تمام تر اختیارات دیے گئے تھے۔اس جے آئی ٹی اور خصوصی اختیارات کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بننے والی جے آئی ٹی میں صرف اتنا فرق ہے کہ سیکورٹی اداروں کی جے آئی ٹی میں نیب ، اورسیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی)کے اراکین نہیں ہوتے ۔ صرف سیکورٹی اداروں سے وابستہ تفتیشی افسران ہوتے ہیں ۔ جو زیر حراست ملزم کو عدالت سے ریمانڈ لینے کے بعد تفتیش کرکے جے آئی ٹی رپورٹ مرتب کرتی ہے ۔ جبکہ اعلی عدلیہ نے حکمران خاندان پر لگے الزامات کی تفتیش کیلئے ، اپنی معاونت کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔
ظاہر ہے کہ اس کے بعد سپریم کورٹ اس بات کی مجاز ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں تشکیل کردہ جے آئی ٹی سے مطمئن ہوتی ہے تو کس قدر ۔ حالیہ ریمارکس میں اعلی عدلیہ نے کے آئی ٹی کی جلد چار کو حکمراں خاندان کے لئے حساس قرار دیا ہے۔ایک ملک میں دوہرے قوانین ہیں یا پھر کچھ اور اس پر کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی ، لیکن عوام کے نزدیک ایک اور ایک ، دو ہی ہونے چاہیے ، گیارہ نہیں۔حکمران خاندان اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں عدلیہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام کن حروف میں لکھوانا چاہتی ہے۔ ماضی میں عدلیہ نے عموماََ بڑے فیصلے کسی مصلحت یا نظریہ ضرورت کے تحت کئے ، یا پھر برسا برس بیت جانے کے باوجوداصغر خان کیس ، جیسے مقدمات پر حتمی حکم جاری نہیں کیا ۔ اور ایسے کئی مقدمات اور کمیشن کی رپورٹس ہیں جو ابھی تک منظر عام پر ہی نہیں آسکیں ، وزیراعظم لیاقت علی خان قتل کیس ، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ، ایبٹ آباد کمیشن ، میمو گیٹ اسکینڈل، آرٹیکل 6 کے تحت سابق صدر پر غداری کیس ، ماڈل ٹائون سانحہ کمیشن ، سمیت ان گنت رپورٹس منظر عام پر نہیں ، اس کی کیا وجہ ہے؟ ۔ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بھی نہیں ہے ۔ لہذا اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ حکمران خاندا ن عدلیہ کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے تو جن جرائم کے الزامات جے آئی ٹی نے لگائے ہیں ۔ ان کے ثبوت متعلقہ اداروں کو دینا ہونگے۔ پھر اس کے ساتھ حکمراں خاندان پر مقدمات قائم بھی ہوتے ہیں تو ازخودجے آئی ٹی رپورٹ پر 1984 کے قانون شہادت آرڈیننس کے آرٹیکل 38لاگو ہوجائے گا ۔جس کی ٹرائل کورٹ میں قانونی حیثیت نہیں ہے۔
اگر عدلیہ فیصلہ دیتی ہے کہ حکمران خاندان صادق و امین نہیں رہے اور یوسف گیلانی کی طرح میاں نواز شریف کو بھی فارغ کردیا جائے تو دونوں وزرائے اعظم کے معاملات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بہر صورت جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعلی عدلیہ کیس متعلقہ اداروں کو بھیجتی ہے یا ازخود کوئی فیصلہ کرتی ہے یہ تو جلد سامنے آجائے گا ، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جو جے آئی ٹیز بنائی ہیں ان پر عمل درآمد کون کرائے گا ؟، کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان بھی ہے ، لیکن دہشت گردوں کےJIT اعترافی بیانات کو بھی گواہان و ثبوت کی ضرورت کیوںہے ۔اس کا فیصلہ کون کرے گا؟؟۔کیا قانون نافذ کرنے اداروں کی نگرانی میں بننے والی جے آئی ٹیز واقعی میں ردی کا ٹکڑا ہیں ،عوام ان جے آئی ٹیز کا بھی منظقی انجام جاننا چاہتی ہیں۔