پاکستان میں گزشتہ 15 برس سے جاب ٹیسٹنگ ادارے کام کر رہے ہیںجن میں مشہور نیشنل ٹیسٹنگ سروس، پاکستان ٹیسٹنگ سروس، اوپن ٹیسٹنگ سروس وغیرہ اور ان کا کام پاکستان بھر کے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ٹیسٹ کے علاوہ نجی اور سرکاری اداروں اور بینکوں میں بھرتیوں اور ترقیوں کے لیے بھی ٹیسٹ لینا ہے۔ یہ تما م غیر سرکاری ادارے ہیں ۔پرائیویٹ نجی ٹیسٹنگ سروسز کے ذریعے نوکریوں کے امتحان کا اصل مقصد ملازمتیں اپنوں کو نوازنے کا نیا جدید طریقہ وردات ہے کیونکہ بیوروکریسی ٹیسٹنگ اداروںکے اعلیٰ حکام کو بلا کر اپنے من پسند افراد کو پاس کرنے کی شرط پر پروجیکٹ دیتی ہے شرط نہ ماننے والا ادارہ اس پروجیکٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔
ٹیسٹنگ ادارے حکومت سے بھی ہر اُمیدوار کے ٹیسٹ کنڈیکٹ کروانے کے پیسے لیتے ہیں اور اسی طرح اُمیدوار کی جیبوں پر ڈاکہ اور مارا جاتا ہے جس اُمیدوارنے جتنی اسامیوں کے لیے اپلائی کرنا ہے وہ اتنی ہی دفعہ الگ الگ فیس ادا کرے گا اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کسی امید وار کو رزلٹ میں اعتراض کی صورت میں ری چیکنگ کی سہولت بھی میسر نہیں۔ مزید برآں امتحانی سینٹر بھی دور دراز علاقوں میں بنائے جاتے ہیں جن سے خاص کر خواتین امید واروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پس ماندہ اضلاع میں رہنے والے افراد ہزاروں روپیہ کرایہ لگا کر سینکڑوں کلو میٹر دور امتحانی سینٹر جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔این ٹی ایس اور اوٹی ایس ہر اُمیدوار کو صرف اپنا رذلٹ دیکھاتے ہیں حالانکہ اُمیدوار کو تمام اُمیدواروں کے نتائج تک رسائی دینی چاہیے ۔ مگر ایساممکن نہیں ہوتا۔کیونکہ اگر تمام اُمیدوار رزلٹ سے آگاہ ہو جائیں گے تو من پسند افراد کو کیسے نوازاجائے گا؟سوشل میڈیا کے ذریعے کئی دفعہ اُمیدواروں نے کہا کہ ہم نے تو ٹیسٹ بھی نہیں دیا مگر ہمارا رزلٹ ویب سائٹ پر شو ہو رہا ہے ۔ ماضی میں نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان (این ٹی ایس) کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر ہارون رشید پر مالی بدعنوانی کے الزامات رہے ہیں اور اسناد جعلی ثابت ہونے پرانہیں فارغ کر دیا گیا تھا۔ان تینوں اداروں میں سب سے نااہل ،نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان کا ادارہ ہے جو 2003میں وجود میں آیا اور ڈاکٹر ہارون رشید اس وقت سے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، ان کی ڈگری کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے تھے جب ان کی ڈگری جعلی ثابت ہو گئی تو انہیں ان کے عہدے سے سبک دوش کر دیا گیا۔ جس ادارے میں اپنے احتساب کا سلسلہ نہ ہو اور عہدیداران کی اسناد چیک کرنے کا طریقہ کار نہ ہو وہ کیوں کر شفافیت کے ساتھ داخلہ ٹیسٹ منعقد کرا سکتا ہے؟
نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) طبی جامعات اور کالجوں کی ملی بھگت سے میرٹ کا قتل عام، اہل اور باصلاحیت طالب علم داخلوں سے محروم کرتا رہا ہے۔ پاکستان میں شراب اگر شہد بن سکتی ہے وہ بھی ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کے سامنے تو ٹیسٹوں میں گھپلا کرنا اور نااہل کو اہل قرار دینے میں کیا وقت لگتا ہے اس نظام نے پورے پاکستان کے نوجوانوں کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے ہر جگہ ڈاکو رائج قائم ہے جس کو جہاں موقعہ مل رہا ہے وہ انصاف کا قتل عام کر رہا ہے نوجوان امتحانات دے دے کر مایوس ہو چکے ہیں مگر ملک کے کرتے دھرتے بہتی گنہگا میں ہاتھ صاف کرتے تھکے نہیں ہیں کوئی ادارہ پاکستان میں ٹیسٹنگ اداروں سے پوچھنے والا نہیں ہے جو کرپٹ مافیہ پر ہاتھ ڈالتا ہے تو اس کو اس کے منصب کے مطابق نذرانہ ادا کر دیا جاتا ہے وہ پھر اپنی رپورٹ میں اُسے شہد قرار دے دیتا ہے ۔
اس طرح کے عوامل نے ہمارے نوجوانوں کو منشیات فروش، ڈاکو اوربددیانت بنا دیا ہے حکمرانو! آخر کب تک اسی طرح نوجوانوں کے چہروں پر مایوسی کے بادل چھائے رہیں گے ؟ کب حقداروں کو اپنا حق میسر ہو گا؟ کب غریب کو محکوم کی لسٹ سے چھٹکارہ ملے گا؟ کب ہمارے نوجوان اپنی محنت اورلگن کی کمائی کھائیں گے؟کب استحصالی نظام کو خاتمہ ہو گا؟ اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے ملک کے اداروں میں ٹکراؤ ہے اور دنیا میں اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ1958 سے ہی دوسرے اداروں میں ٹانگ اڑائی کی بدعت چل رہی ہے۔ نتیجہ جگ ہنسائی اور عوام کی پسپائی ہے۔ عوام ہر لمحہ ہر موڑ پر نقصان اٹھا رہی ہے۔ جیسے دو بھینسوں کی لڑائی میں گھاس کا ستیاناس ہوتا ہے۔ عین ایسے ہی بے چارے عوام اداروں کے درمیان لڑائی میں گھاس بنی ہوئی ہے۔ ادارے چلانے والوں کے اس لڑائی کے باوجود اثاثے بنتے اور بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ عوام مزید لٹتی جا رہی ہے جو جمع پونجی ہے وہ بھی ادارے بری طرح سے جونک کی طرح چوس رہے ہیں۔ہماری اعلیٰ عدالتوں کو ہزاروں میل دور کے اقامے نظر آ جاتے ہیں یا ہماری دور تک نظر رکھنے والی ایجنسیاں اقامے تلاش کرکے عدلیہ کے سامنے پیش کرتی رہتی ہیں۔ مگر غریبوں کو لوٹنے کی اس لوٹ مار پر نہ تو کسی کی نگاہ پڑتی ہے اور اس شور شرابے پر کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ عوام بے چاری نقارخانے میں طوطی بجاتی رہتی ہے۔
ہمارا الیکٹرانک ”بہادر میڈیا بھی اداروں کی ٹانگ اڑائی پر ہی چٹخارے دار پروگرام برپا کرتا رہتا ہے مگر ایسے عوامی مسائل پر تجاہل عارفانہ ہی برتتا ہے کیونکہ ایسے پروگراموں کی ریٹنگ نہیں ملتی۔ اشتہار نہیں ملتے۔ گلشن کاکاروبار نہیں چلتا۔پاکستان بقول سیاستدان اور آئین پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے اور اس فلاحی ریاست میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار دینے کی بجائے ان کی بے روزگاری کو کمزوری بنا کر ان کو بیروزگاری الاؤنس یا روزگار دینے کی بجائے الٹا ان سے ان کے غریب والدین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود دعویٰ ہے کہ انصاف عوام کی دہلیز پر پہنچایا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے ایک بے روزگار کی شکایت پر این ٹی ایس کی فیس میں آدھی رعایت کروانے کے احکامات جاری کئے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ فیس بالکل ختم کر دی جاتی یا پھر این ٹی ایس کا ادارہ ہی ختم کر دیا جاتا اور صرف تعلیمی قابلیت کو ہی حصول ملازمت کا معیار مقرر کردیا جاتا۔ اسی پر میرٹ بنایا جائے۔ این ٹی ایس کے بعد کرپشن میں اضافہ ہی ہو ا ہے کمی نہیں۔ اگر این ٹی ایس کوہی تعلیم کا معیار بنانا ہے تو پھر سکولوں کالجز’ یونیورسٹیوں کے امتحانات کو ختم کر دیا جائے وہاں طلبا بورڈز کے امتحانات دینے کی بجائے اداروں کے اندر ہی منعقدہ امتحانات دیں کامیاب ہوں اور این ٹی ایس میں اپنی آخری قابلیت کا اظہار کریں۔