سعودیہ عرب کے فرمائروا شاہ عبداللہ کی جانب سے ملازمت اور رھائش کے معتلق نئے قوانین پر عملدرآمد کے بعد سعودی عرب میں پاکستانیوں کی حالت انتھائی ناگفتہ بہ ھے۔ پاکستانی سڑکوں اور پلوں کے نیچے بیٹھے ھیں۔ وہ ھر روز علی الصبح پاکستانی سفارت خانے کے سامنے جمع ھو جاتے ھیں اور خود کو سعودی حکام کے حوالے کر نے کا مطالبہ کرتے ھیں۔
تا کہ انھیں ملکر وانہ کر نے کا بندوبست کیا جا سکے۔ تا ھم ان کی اکژیت ناکام واپس لوٹتی ھے۔ آج کے سعودی عرب میں پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نھیں۔ سعودیہ میں پاکستانیوں کی تعداد پندراں سو ھے۔ جن میں چؤن ھزار غیر قانونی ھیں۔ بائیس ھزار ھیں۔ جو جج یا عمر کی غرض سے آئے تھے لیکن پھر واپس نھیں گئے۔
غیر قانونی طور پر مقیم افراد جنھوں نے عام معافی کے اعلان سے فائیدہ نھیں اٹھایا۔ اب گھروں اور ڈیروں میں بیٹھے ھیں اور ایسی صورتحال سے دو چار ھیں کہ باھر جا کر کام بھی کر سکتے۔ ایک اطلاع کی مطابق دمام شھر کی جیلوں میں پندراں ھزار سے زائد غیر ملکی قیدی ھیں۔ جن میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ھے۔
ملازمت کے لئے قوانیں کا نفاز دسمبر 2012 میں کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پکڑ دھڑ شروع ھوئی لیکن ملک بدری کے بعد پیدا ھونے والے بحران کی وجہ سے اس پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔
اسی دوران شاہ عبد اللہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا اور پرائیوٹ کمپنیوں اور کاروبار کرنے والوں کو سات ماہ کی مھلت اس شرت پر دی کہ وہ غیرقانونی ملازمین کے کاغزات پورے کر لے گے۔ جولائی میں پیہ مھلت ختم ھو جا نے پرچات مھینوں کا مزید وقت دیا جائے گا۔تاکہ غیر قانونی افراد خود ھی ملک چھوڑ کر چلے جائے۔ ورنہ گرفتاری اور ملک بدری سامنا کریں۔
ساٹھ ھزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جا چکا ھے۔ ملک بدری کے رد عمل کے طور پر ریاض کے پسمائندہ علاقوں میں مظاھرے پھوٹ پڑے جس میں کئی افریقی باشندے ھلاک ھو گئے۔ مکہ میں چھ ھزار صفائی کر نے والے ملازمین احتجاجن ھڑتال پر چلے گئے۔ ملک بھر میں عملے کی کمی کی وجہ سے درجنوں دکانیں اور ریسٹورنٹ بند ھو گئے۔ نوے لاکھ غیر ملکی سعودی کا تھائی حصہ ھیں۔
Saudi Arabia
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں بے روز گاری کی شرح 12 فیصد ھے جو ناقابل یقین حد تک بھت زیادہ ھے۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ سعودیہ عرب دنیا میں تیل کی دولت سے مالا مال ھونے کی وجہ کی وجہ سے معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ مستحکم ملک سمھجا جاتا ھے۔
سعودی عرب میں ملازمین کی ملک بدری کے نتیجے میں جنم لینے والے بحران کا اہم ترین پہلو خالی اسامیوں پر سعودی عوام کی تقرری کا معاملہ ھے۔ سعودی عوام عام نوعیت کی نوکریوں پر کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ بہی سعودی شہری غیر ملکی ملازم کی نسبت پانچ گُنا مہنگا پڑتا ھے۔ 2 ہزار ریال کی نوکری پر مقامی شہری 7 ہزار ریال قبول کرنے پر بہی تیار نہیں۔ سعودی حلقوں میں تاثر پایا جاتا ھے کہ حکومت کا موقف ھے کہ غیر ملکیوں کے خلاف کاروائی کا مقصد یہ ھے کہ سعودی شہریوں کیلئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ ہم دس لاکھ افراد کو ملک بدر کریں گے۔ تو اس کی جگہ بیس لاکھ نئے افراد آجائیں گے۔
سعودی عرب میں قانونی و غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں نے سفارت خانے کے کردار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ھے۔ ان کا کہنا ھے کہ سعودی حکام اور شہریوں کی جانب سے ناروا سلوک پر سفارت خانہ اُن کی مدد اور تحفظ کیلئے کسی بھی قسم کے اقدام سے ہچکچاتا ہے۔
اسی لیے پاکستانی سعودی سر زمین پر بے بسی کی تصویر بنے دربدر بھٹکتے پھر رھے ھیں۔ اسکے جواب میں سعودی عرب میں پاکستان کے قائم مقام سفیر ضیام اکرم کا کہنا ھے کہ جن پاکستانیوں نے عام معافی سے فائدہ نہیں اُٹہایا اور ابھی تک سعودیہ میں ہی ھیں اُن کا معاملہ سعودی حکام کے سامنے اُٹہایا ہے۔