سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایران سے ماضی میں طے شدہ مشترکہ جامع لائحہ عمل کے نام سے جوہری سمجھوتے میں کی گئی غلطیاں نہیں دُہرائے۔وہ نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن سے مخاطب تھے۔
انھوں نے انتیسویں عرب امریکی پالیسی ساز کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا’’ جناب نومنتخب صدر! (جوبائیڈن)پہلی ڈیل کی غلطیوں اور اسقام کو دُہرائیں نہیں۔کسی غیر جامع سمجھوتے سے ہمارے خطے میں پائیدار امن وسلامتی کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں جولائی 2015ء میں جب چھے عالمی طاقتوں کا ایران سے جوہری سمجھوتا طے پایاتھا تو اس وقت جوزف بائیڈن ان کے نائب صدر تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018ء میں اس سمجھوتے سے یک طرفہ دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور ایران کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔
جوزف بائیڈن نے اپنی حالیہ انتخابی مہم کے دوران میں ایران کےساتھ طے شدہ اس جوہری سمجھوتے میں بعض شرائط کے ساتھ دوبارہ شامل ہونے کے اعلانات کیے ہیں ۔ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکا کی اس سمجھوتے میں دوبارہ شمولیت کے لیے کیا شرائط ہوں گی۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ ایران کا عراق ، شام ، یمن ، لبنان اور سعودی عرب میں تخریبی کردار اس کے جوہری پروگرام کی طرح ہی خطرے کا موجب ہے۔اس نے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر براہ راست اور بالواسطہ حملے کیے ہیں۔
انھوں نے امریکا کو تجویز پیش کی ہے کہ ایران کے ساتھ کسی بھی نئی ڈیل کو حتمی شکل دیتے وقت باعثِ تشویش تمام مسائل کا احاطہ کیا جانا چاہیے۔ان کے بہ قول اس کا یہ مطلب ہے کہ ایران سے کسی بھی مجوزہ بات چیت میں امریکا کے دوست اور اتحادی ممالک کو بھی شریک کیا جائے۔
ایران سے مشترکہ جامع لائحہ عمل کے نام سے سمجھوتے میں صرف جوہری پروگرام ہی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی اور اس میں ایران کی خطے میں تخریبی سرگرمیوں اور اس کی گماشتہ دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی ایسے امور کا کوئی ذکر کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ اس کے بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام پر بھی کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔
شکست خوردہ امریکی صدر ٹرمپ یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ اس کے بجائے ایک نیا جامع سمجھوتا چاہتے ہیں جس میں اس کے جوہری کے علاوہ بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام اور خطے میں تخریبی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہو۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے امریکا کو مشرقِ اوسط سے پسپائی اختیار کرنے پر بھی خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے موجودہ تزویراتی خلا مزید گہرا ہوگا۔اس کو اب علاقائی اور بعض دوسری طاقتیں پُر کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔