واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) سابق نائب امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرائن میں جمہوریت کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ تاہم اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کییف حکومت سے بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف مبینہ بدعنوانی کی تفتیش میں تعاون کی درخواست کی ہے۔
2014 ء میں اس وقت کے نائب امریکی صدر جو بائیڈن ایک ایسے وقت میں واشنگٹن کی یوکرائن کی کمزور جمہوری حکومت کی حمایت میں پیش پیش تھے، جب وہ روسی جارحیت کو روکنے اور بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنا چاہتی تھی۔ تاہم یوکرائن کی ایک کمپنی کی جانب سے جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر کو نوکری دینے کے معاملے پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اس وقت اوباما انتظامیہ نے کہا تھا کہ بائیڈن کے بیٹے ایک شہری ہیں اور یہ ملازمت اختیار کر کے ان کے والد یا انہوں نےکوئی بھی غلط کام نہیں کیا۔
تاہم اب یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر روشنی میں آیا ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرائن کے صدر سے جو بائیڈن کے خلاف مبینہ بدعنوانی کی چھان بین میں مدد کرنے کی درخواست کی ہے۔ جو بائیڈن ان کوششوں میں ہیں کہ وہ 2020ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ٹرمپ کے خلاف انتخاب لڑیں۔ ٹرمپ کے نجی معاملات کے وکیل روڈی جولیانی نے بھی یوکرائنی حکام سے سرعام جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہنٹر بائیڈن کو اپریل 2014ء میں بورسما ہولڈنگز کے بورڈ کا رکن بنایا گیا تھا۔ اس کمپنی کے مالک سیاسی طور پر یوکرائن کے سابق صدر وکٹور یانوکووچ کے حلیف ہیں۔ روس نواز سمجھے جانے والے وکٹور یانوکووچ کو فروری 2014ء میں شدید مظاہروں کو بعد اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔ اس پیش رفت کے فوری بعد اوباما انتظامیہ نے یوکرائن کی نئی حکومت کے ساتھ اپنے روابط گہرے کر لیے تھے۔ اس پورے عمل میں جو بائیڈن نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور انہوں نے یوکرائن جا کر مغرب نواز کییف حکومت سے کئی مرتبہ بات چیت کی تھی۔
بزنس میں ہنٹر بائیڈن کے کردار کے حوالے سے بدعنوانی کے خلاف سرگرم افراد نے ان تحفظات کا اظہار کیا کہ بورسما اوباما انتظامیہ کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتی ہے۔ اس وقت یہ کمپنی جزیرہ نما کریمیا میں قدرتی گیس نکالنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہی تھی۔ صدارت کے منصب سے یانوکووچ کی علیحدگی کے بعد روس نے کریمیا کو ضم کر لیا تھا۔
ہنٹر بائیڈن نے ایسی خبروں کو مسترد کیا ہے کہ انہوں نے بورسما کی خاطر اپنے والد کے اثر و رسوخ کو استعمال کیا ہے۔ وہ 2019ء کے اوائل تک اس کمپنی کے بورڈ کے رکن رہے تھے۔ اس دوران وہ بین الاقوامی اجلاسوں میں بورسما کے مفادات کا دفاع کرتے تھے۔ جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے کبھی بھی اس کے بیرون ملک کاروبار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔