واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایرانی عہدے داران کے ساتھ ‘بیک ڈور چینلز’ کے ذریعے ملاقات اور بات چیت کرنے کے سبب اپنے سابقہ ہم منصب جان کیری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پومپیو نے الزام عائد کیا کہ کیری نے تہران کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی پالیسی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔
جمعے کے روز ایک پریس کانفرنس میں پومپیو کا کہنا تھا کہ “وزیر جان کیری نے جو کچھ کیا وہ نامناسب اور اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا ،،، انہیں اس نوعیت کے برتاؤ میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ امر امریکا کی اُس خارجہ پالیسی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا جس کے احکامات موجودہ صدر نے دیے ہیں”۔
پومپیو کی جانب سے کیری پر یہ تنقید ٹرمپ کی اُس ٹوئیٹ کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے جس میں امریکی صدر نے کیری پر الزام عائد کیا تھا کہ “انہوں نے دشمن ایرانی نظام کے ساتھ غیر قانونی ملاقاتوں کا انعقاد کیا”۔
ٹرمپ اُس جوہری معاہدے سے بھی علاحدہ ہو چکے ہیں جس کے لیے کیری نے مذاکرات کیے تھے۔
فوکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں جان کیری نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے جنوری 2017ء میں اپنا منصب چھوڑنے کے بعد سے “تین یا چار بار” ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ کیری نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ ایران میں حکمراں نظام کی تبدیلی کی پالیسی اپنا رہی ہے۔
پومپیو نے مزید کہا کہ “یہ وزارت خارجہ کے سابق وزیر ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے سب سے بڑے ملک کے ساتھ رابطہ رکھا۔ یہ اُن کے ساتھ بات چیت کرتے تھے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ اس انتظامیہ کے چلے جانے کا انتظار کرو۔ امریکی تاریخ میں اس طرح کے معاملے کی کوئی سابقہ نظیر نہیں مل سکتی”۔ پومپیو نے اس امر کی تردید کی کہ امریکی انتظامیہ ایران میں حکمراں نظام کی تبدیلی کے لیے کوشاں ہے۔
پومپیو کا بیان سامنے آنے کے کچھ دیر بعد جان کیری نے “ٹوئیٹر” پر لکھا کہ “جنابِ صدر آپ کو میری اور ایرانی وزیر خارجہ کی ملاقات سے زیادہ تشویش پال مینافورٹ کے رابرٹ مُلر کے ساتھ ملنے پر ہونی چاہیے”۔ کیری کا اشارہ ٹرمپ کی مہم کے سابق سربراہ پال مینافورٹ کی جانب تھا۔ مینافورٹ نے جمعے کے روز اُن وفاقی تحقیق کاروں کے ساتھ تعاون پر آمادگی ظاہر کر دی جو 2016ء میں امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
جان کیری کے ترجمان کے مطابق سابقہ سفارت کاروں کا اپنے غیر ملکی ہم منصبوں کے ساتھ ملنا کوئی نامناسب بات نہیں بلکہ ناموزوں اور اپنی نوعیت کا اولین امر یہ ہے کہ سیاسی ڈراموں کی خاطر وزارت خارجہ کا پلیٹ فارم ہائی جیک کر لیا جائے۔