تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشےد 23 مارچ 1940،کو لاہور کے منٹو پارک موجودہ اقبال پارک میں مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے مطالبے کی گونج جاری تھی کہ کشمیریوں نے مسلم لیگ کا سبز ہلالی پرچم جس نے پاکستان کے پرچم کا روپ 1947، امیںختیار کیاپورے جموں و کشمیر میں لہر کر اس بات کا اظہار کر دیا تھا کہ کشمیری ہر حال میں قائدِ اعظم کی قیادت میں پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ کشمیریوں کا پاکستان سے یکجہتی اظہا اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ مدر لینڈ کا مطالبہ کیا تھا۔جس کے بعد وہ پاکستان کا پرچم اپنے سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اور ہر ہر موقعے پر اس کو بلا کسی خوف و خطر کے لہراتے رہتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان ۔آزادی سے پہلے ان کا نعرہ ہوا کرتا تھا کہ ”بٹ کے رہے گا ہندوستا،کشمیر بنے گا پاکستان اور بھی کشمیری اب یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ”تیرا میرا کیا ارمان؟ پاکستان پاکستان!!!“
1947 ,کے اعلانِ آزادی میں ریاستوں کے الحاق کے بارے میںتین امور کا واضح اطہار اس طرح کیا گیا تھاکہ”کوئی بھی ریاست ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت ان تین شرائط کے تحت کر سکتی ہے ۔نمبر 1 ۔آبادی کی اکثریت جس ملک میں شمولیت کی خواہشمند ہو (ہندو اکثریتی آبادی والی ریاست ہندوستان میں شامل ہو جبکہ مسلمان اکثریت والی ریاست کو پاکستان میں شمولیت کا حق حاصل ہوگا)۔نمبر2 ۔ریاست کاواضح جغرایائی تعلق جس ملک سے ہوگا ریاست کو اسُی ملک میں شمولیت کا اختیار ہوگا۔نمبر3 ۔ریاست کا حکمران اپنے وزیراعظم کے مشورے پر کسی بھی ملک سے ریاست کا الحاق کرناچاہے کر سکتا ہے۔
مگر ہندوستان کے حکمرانوں نے ان تینوں باتوں کی پروانہ کی اور جموں کشمیرپر قبضہ کرنے کی بے حد جلدی کی گئی۔پہلے جموں و کشمیر کے وزیر اعظم پنڈت کاک کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن سے پریشر ڈلواکرتقسیمِ ہند کے فوراََ بعدکشمیر کی وزارت عظمیٰ سے ہٹوایا گیا۔کیونکہ پنڈت کاک جموں و کشمیرکو پاکستان میں شامل کرانے کا حامی تھا۔دوسری اہم بات یہ تھی کہ ریاست جموں کشمیر کاآزادی کے فوراََ بعد حکومت ِ پاکستان کے ساتھ (stand still agreement) معاہدہ قائمہ پہلے سے موجود تھا ۔جس کے تحت امور داخلہ، امور خارجہ اور امور خزانہ(کرنسی)پاکستان کی ذمہ داری تھی۔اس معاہدے کے ہوتے ہوئے مہاراجہ کشمیر کسی بھی صورت میں کسی بھی قسم کا کسی بھی ملک سے کوئی معاہدہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔پھر کشمیر کا جغرافیہ اورکشمیر کی آبادی، قریباََ 80%،اکثریت پاکستان سے الحاق کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی تھی۔ گیا۔تا کہ ہندوستان میںجموں و کشمیر کی غیر قانونی شمولیت اور illogical ،الحاق کی ایک طرح سے جعلی دستاویزتیار کی گئی ،جس میں نہ تو کشمیریوں کی مرضی شامل تھی نہ جغرافیائی محلِ وقوع کا خیال کھا گیا نہ معاہدہ قائمہ پر توجہ کی گئی اور نا ہی پنڈت کاک وزیر اعظم جموں و کشمیر کی رائے کا احترام کیا گیا تھا۔
Kashmir
کہ اچانک 27، اکتوبر 1947 ،ہندوستانی رہنماﺅں اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے کشمیر میں شب خون ماراگیا اورآل انڈیا ریڈیو سے رات کی تاریکی میں جموں و کشمیر کی ریاست کے ہندوستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا گیا،جس کی کہیں بھی کوئی حیثیت نہ تھی۔راتوں رات ہوائی جہازوں کے ذریعے ہندوستانی فوجیںجمو و کشمیر کے سرینگر کے ہوئی ادے پر دھڑا دھڑاتار نا شروع کر دیں ۔ہندوستان کے جموں و کشمیر کے سرینگر ائیر پورٹ فوجیں اتارنے کی وجہ یہ تھی کہ جغرافیائی لحاظ سے کوئی ایک راستہ بھی ہندوستان سے کشمیر میں داخلے کا نہیں تھا۔اس در اندازی پر بے سرو سامانی کے عالم میں پاکستان سے ایک زبردست جنگ بھی ہوئی جس میں پاکستان کے پا س فوجیں نا ہونے اور پاکستان کے آرمی چیف آکنلیک نے بھی ماﺅنٹ بیٹن کے اشارے پر پاکستان کے سربراہ مملکت قائد اعظم محمد علی جناح کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے مملکت خداداد کو نقصان پہنچاناچاہا ۔مگر پھر بھی ہماری سپاہ نے بے سرو سامانی کے عالم میںقبائیلیوں اور کشمیریوں کے ساتھ مل کر ہندوستان کی منظم فوجوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا تو پنڈت نہرو بھاگے ہوئے اقوام متحدہ میں پہنچ گئے اور ساری دنیا سے یہ وعدہ کر کے لوٹے کہ جنگ بندی کے بعد وہ بہت جلد کشمیریوں کو ان کا حقِ ارادیت دیدیں گے۔پاکستان نے اقوام متحدہ اور ہندوستان کے جھوٹے وعدے پر اعتبار کیا اور دھوکا کھایا۔
پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کی کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ کشمیر پر ہندوستان کا غا صبانہ قبضہ ہے۔ جس نے پاکستان اور ہندوستان کی معیشتوں پر انتہائی دور رس اور گہرے اثرات مرتب کئے ہیں دوسری جانب کشمیر کا بچہ بچہ پاکستان سے الحاق کا حامی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کی جنگ میں اپنا لہو مسلسل بہا رہے ہیں اور آزادی کے حصول کے لئے لاکھوں جانیں قربان کر چکے ہیں ۔ہندوستان سات لکھ فوج کشمیر میں رکھنے کے باوجود فوجی بندوقوں سے کشمیریوں کی آواز دبا نہیں سکا ہے۔ہندو فوجیں جس قدر کشمیریوں پر ظلم کرتی ہیں اُتنا ہی ان کا جذبہءحریت ابھرتا ہے۔ساری دنیا بھی یہ بات جانتی ہے کہ کوئی مائی کا لال کشمیریوں کے جذبہ ¾ حریت کو دبا نہیں سکتا ہے۔
Kashmiri People
کشمیری موقعہ موقعہ پر پاکستان کے پرچم کو سینے سے لگائے رہتے ہیں جس سے ہندوستانیوں کو بے پناہ تکلیف پہنچتی ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ روز مقبوضہ کشمیر میں پیش آیا۔سید علی گیلانی کی دہلی سے کشمیر آمد پر کشمیری عوام کا ایک جمِ غفیر ان کے استقبال کے لئے نکل ا ٓیا۔ ان میںحریت پسند وں میںحریت رہنمامسرت عالم بھی تھے جو کی ہندوستان کے عقوبت خانے سے چار سالی ازیت بھگتنے کے بعدرہائی پانےوالے رہنما ہیں،نے پاکستان سے یکجہتی اور خوشی کے اظہار کی غرض سے سری نگر میں ہزاروں افراد کے ساتھ یکجہتی ریلی میں شرکت کی جنہوں نے پاکستان کا پرچم اٹھایا ہوا تھا ۔ تو ہندوستانی فوجیوں نے ان نہتے کشمیریوں پر زبر دست مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کشمیریوں کی ےہ ایک پر امن ریلی تھی فضاءمیں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں اور سبزہلالی پرچموں کو کشمیریوں کے ہاتھوں میں لہراتا دیکھ کر اور ہندو سرکار کے خلاف نعرے سن کر ہندوستان کی حکومت اور ہندو میڈیا کے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
ہندو جاتی کی فوجیں زبر دست تشدد پر اتر آئیں اور دھڑا دھڑ حریت رہنماﺅں کی دوبارہ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔مسرت عالم کوایک مرتبہ پھر پاکستان کا پرچم لہرانے پر حرا ست میں لے لیا گیا۔علی گیلانی اور دیگر رہنماﺅں کے خلاف مقدمات درج کر لئے گئے۔ اس تشدد اور گرفتاریوں کی سید علی گیلانی نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔پاکستان کے دفترِِخارجہ نے کشمیریوں کے اس جذبے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کشمیریوں کی پاکستان سے عقیدت کی غمازی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیریوں میں آج یہ نعر ہ بہت ہی مقبول ”تیری جان میری جان!!!پاکستان پاکستان“
Shabbir Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبےر احمد خورشےد shabbir4khurshid@gmail.com