شنید ہے کہ مرشد 16 نومبر کو اپنے وطن کینیڈا سے آبائی وطن تشریف لارہے ہیں۔ ہم ابھی تک اِس مخمصے میں ہیں کہ مرشد پاکستان میں ”مہاجر”ہوتے ہیں یا کینیڈا میں ۔یہ مخمصہ تو صرف ایم کیوایم والے ہی دور کر سکتے ہیں کیونکہ وہ لفظ ”مہاجر”پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں لیکن ہم تو ایم کیوایم کی”بڑھکوں”سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ اُن سے پوچھنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتے کچھ بَدبخت کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام ”کینیڈوی”ہی ہیں اسی لیے تو وہ ”ڈیل”کے پیسے ”نُکرے”لگانے کینیڈا گئے اور اب سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کی ”دیت”وصول کرنے آرہے ہیں۔ جونہی حکمرانوں نے اُن کا حساب بیباک کیا وہ واپس کینیڈا پرواز کر جائیں گے۔
لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے کیونکہ مُرشد خود کہہ چکے ہیں کہ جو ڈیل ثابت کر دے اُسے 5 کروڑ روپے انعام دیا جائے گا اور یہ تو اظہرمِن الشمس ہے کہ مُرشد نے کبھی ”جھوٹ” بولا نہیں بولاالبتہ وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ”دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز”۔شاید اسی لیے انہوں نے پہلے تو یہ فرمایا کہ انقلاب تک دھرنا جاری رہے گا اور جو دھرنے سے اُٹھ کر جائے اُسے شہید کر دیا جائے لیکن جب اُنہیں دال گلتی نظر نہ آئی اور وہ محسوس کرنے لگے کہ دھرنا محض کارِ بیکار ہے تواُنہوں نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے اپنے” چھوٹے بھائی” سے مشورہ کیے بغیر دھرنا ختم کرکے کھسک لینا ہی مناسب جانا۔ مولانا تو ”پھُر” ہوگئے لیکن خاں صاحب تاحال ڈی چوک اسلام آباد میںڈٹے ہوئے ہیں اورتَب تک ڈٹے رہیں گے جب تک یا تو وزیرِاعظم استعفیٰ نہیں دے دیتے یا پھر تحریکِ انصاف ریزہ ریزہ ہوکر بکھر نہیں جاتی۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب بھی عجیب ہیں۔
اگر اُن کے اندر بقدرِ اشکِ بُلبُل بھی جذبۂ حب الوطنی موجزن ہوتا تو وہ ایک انتہائی محبِ وطن جماعت کو بکھرنے سے بچانے کے لیے ہی استعفیٰ دے دیتے لیکن وہ استعفیٰ دینے کی بجائے چین اور جرمنی کی ”سیر” کو نکل گئے۔ اب ”تنگ آمد بجنگ آمد”کے مصداق خاں صاحب نے رحیم یارخاں کے جلسے میں لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا کہ 30 نومبر کے بعد دھرنا پرامن نہیں رہے گا۔ ہم جو 30 نومبر کے دھرنے میں شمولیت کے لیے کمربستہ تھے اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر حکومت نے ”کھُنے سیکنے”کا پروگرام بنا لیا تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟۔
ویسے ہمیں یقین ہے کہ ہماری شمولیت کے بغیر بھی ”سونامی”نے سب کچھ بہا لے جاناہے ،یہ کوئی پیپلزپارٹی والی ”نیلوفر”نہیں جو کناروں پر پہنچنے سے پہلے ہی دَم توڑ دے۔ یہ توایسی ”پوہنچی”ہوئی شئے ہے جس کے آگے ”کترینہ” اور ”ریٹا”کی بھی کوئی حیثیت نہیں اِس لیے طے ہے کہ ہماری سونامی نیا پاکستان بناکر ہی دَم لے گی ۔جب ہماری کامیابی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے تو پھر 30 نومبر کے دھرنے میں ہماری شمولیت یا عدم شمولیت سے ”کَکھ”اثر نہیں پڑنے والا۔ اب ہم 30 نومبر کا سارا دِن ٹی وی کے آگے بیٹھ کر ”گو نواز گو” کے نعرے لگاتے رہیں گے ۔اسے کہتے ہیں ”ہینگ ہِلے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔
Jahangir Tareen
ہمارے کپتان صاحب نے اپنی تقریر میں حکومت سے کچھ گلے شکوے بھی کیے ہیں ۔اُنہوں نے دُکھی دُکھی سے لہجے میں فرمایا کہ حکومت نے اُن کے بنی گالہ کے گھر کی بجلی کا ٹ دی ہے اوراب وہ ”موم بتّی”جلا کر گزارا کر رہے ہیں ۔جب سے ہم نے یہ سُنا ہے ،ہمارا خون متواتر کھَولتا جا رہا ہے۔ ہمارے گھر میں ایک ننھّامُنّا جنریٹر پڑا ہے جِسے ہم کسی نہ کسی طریقے سے بنی گالہ پہنچا ہی دیں گے لیکن کہے دیتے ہیں کہ حکمران اُتنا ہی ظلم کریں جتنا کہ وہ سہہ سکیں ۔ویسے حیرت ہے کہ محترم جہانگیر ترین اپنا طیارہ تو خاںصاحب کو دے سکتے ہیں اور بُلٹ پروف گاڑی بھی تو کیا ایک جنریٹر خرید کر نہیں دے سکتے ؟۔خاں صاحب نے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ حکومت اُن سے مشورہ کیے بغیر ہر کام ”اندرواندری”کر لیتی ہے۔
حکومت نے جسے صدر بنایا ہے اُنہیں اُس کا نام بھی یاد نہیں ۔یہ حکومت کی دوسری بڑی زیادتی ہے ۔اگروہ خاںصاحب سے مشورہ کر لیتی تو یقیناََ محترم ممنون حسین صاحب سے بہتر ”چوائس”مِل جاتی اور عین ممکن ہے کہ خاںصاحب محترمہ شیریں مزاری کا نام تجویز کردیتے کیونکہ خاں صاحب کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ تحریکِ انصاف وہ واحد جماعت ہے جس نے خواتین میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ہم تو مانتے ہیں کہ ایسا ہی ہے لیکن پیپلزپارٹی والے کہتے ہیں کہ خواتین میں شعور پیدا کرنے والی صرف پیپلزپارٹی ہی ہے جس نے محترمہ بینظیر شہید کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنایا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر خاںصاحب کا دعویٰ سچ ہے تو پھر وہ یہ اعلان بھی کردیں کہ اگر تحریکِ انصاف ”کبھی” برسرِاقتدار آئی توکسی خاتون رُکن کو ہی وزارتِ عظمیٰ کا منصب عطا کیا جائے گا۔
خاں صاحب نے یہ گلہ بھی کیا کہ وزیرِاعظم جب بھی بیرونی دورے پر جاتے ہیں اپنے ساتھ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ شہبازشریف کو لے جاتے ہیں ،خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک اُنہیں کیوں یاد نہیں رہتے ۔جوابِ آںغزل کے طور پر محترم پرویز رشید صاحب نے فرمایا کہ شہباز شریف صاحب صنعتکار اور معاشی میدان کے ماہر کھلاڑی ۔اسی لیے وزیرِاعظم صاحب چین کے دورے میں اُنہیں ساتھ لے کر گئے ہیں۔اگر چین میں کوئی ثقافتی پروگرام ہوا تو وہ وعدہ کرتے ہیں کہ پرویز خٹک صاحب کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر ثقافتی پروگرام میں کوئی میوزیکل کنسرٹ بھی ہوا تو خٹک صاحب تو تھوڑے بہت ہاتھ چلا کر گزارا کر لیں گے لیکن پرویز رشیدصاحب کیا کریں گے؟۔
ویسے پرویزرشید صاحب کے اندر آجکل رانا ثناء اللہ اور راجہ ریاض کی روحیں حلول کر چکی ہیں اسی لیے وہ ”اَوکھی اَوکھی”باتیں کرنے لگے ہیں جو جلتی پر تیل کا کام دے رہی ہیں۔ پرویز رشید صاحب کی ایسی ہی ”اَوکھی”باتوں سے تنگ آکر خاں صاحب نے بھی کہہ دیاکہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کا ایسا جوڈیشل کمیشن بنے جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے بھی شامل ہوں۔اب حکومت ایک دفعہ پھر”وخت” میں پڑگئی ہے کیونکہ آئین ایسے کسی جوڈیشل کمیشن کی اجازت نہیں دیتا اور ایسے جوڈیشل کمیشن کے بغیر خاںصاحب دھرنا ختم کرنے کو تیار نہیں۔