تحریر : عماد ظفر جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے سامنے آج حسین نواز کو پیشـں ہوتے دیکھا تو آنکھوں کے سامنے مشرف دور کا منظر آ گیا.غالبا سال 2000اور دو ہزار ایک کا وقت تھا جب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو روزانہ صبح آٹھ بجے کبھی احتساب کی عدالت اور کبھی مشرف کے کسی وفادار کے سامنے پیش ہونے کا حکم ہوتا تھا. حمزہ شہباز روز بلاناغہ اپنے خاندان پر لگائے الزامات کا دفاع کرنے کیلئے پیشیاں بھگتتے تھے. مارشل لا کا زمانہ تھا دور دور تک کوئی بھی سیاسی کارکن نہ تو ان کے استقبال کیلئے کہیں نظر آتا اور نہ ہی میڈیا کا کوئی نمائندہ کوریج کرنے کی جرات کر پاتا. قیادت جلا وطن تھی. حمزہ شہباز جاوید ہاشمی مشاہد الہ خان ، خواجہ آصف، صدیق الفاروق اور سعد رفیق جیسے سیاسی رہنما پیشیاں بھگتنے میں یا ٹارچر سیل میں وقت گزارتے تھے.
سعد رفیق ،مشاہدالہ خان اور جاوید ہاشمی کو جس بد ترین ٹارچر سے گزارا گیا اس کی مثال شاید ہی وطن عزیز کی حالیہ تاریخ میں موجود ہو. خیر مشرف کے دور اقتدار کے دوران پوری حکومتی مشینری کا زور لگا کر اور قانون کو باندی بنا کر بھی نہ تو شریف خاندان پر کرپشن کا ایک بھی کیس ثابت کیا جا سکا اور نا ہی محترمہ بینظیر بھٹو پر لگے الزامات کو ثابت کیا جا سکا. وقت بدلا ضرور ہے لیکن سازشیں اور چالیں وہی ایک سی ہیں. نواز شریف کی اولاد پھر سے جے آئی ٹی میں پیش ہو رہی ہے اور عوام کو ایک بار پھر “لوٹی ہوئی دولت” کا لالی پاپ چوسنے کو دے دیا گیا ہے.وہ عدالت جس نے پانامہ کے گڑھے مردے پر جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا تھا عمران خان کے اثاثہ جات کے متعلق ناکافی ثبوت اور منی ٹریک کی سرے سے عدم موجودگی پر کوئی خاص ایکشن لینے میں دلچسپی ظاہر کرتی نہیں دکھائی دیتی.
ایک جانب ایک سیاسی فریق سے دہائیوں پرانا حساب کتاب مانگا جا رہا پتا جبکہ دوسرے سیاسی فریق کے چند سال پہلے کے گوشواروں کا ریکارڈ نہ ہونے پر بھی کوئی خاص شور سنائی نہیں دیتا. عوام ہمیشہ کی مانند اپنے اپنے سیاسی نظریات اور مفادات کے تابع مختلف سیاسی فریقین کے حق یا مخالفت میں رائے دیتے دکھائی دیتے ہیں. جوائنٹ ابویسٹیگیشن ٹیم میں وزیر اعظم کی اولاد کی پیشی ہو یا سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں عمران خان کی پیشی احتساب صرف اور صرف سیاستدانوں کا ہوتا دکھائی دیتا ہے. ریاست کے دیگر ستونوں سے منسلک سابقہ بڑے افراد البتہ اس احتساب سے بالکل مبرا دکھائی دیتے ہیں.پرویز مشرف کی ہی مثال لے لیجئے کمر درد کا بہانہ کر کے ایسا غائب ہوا کہ اب واپس آنے کا نام تک لیتا نہیں دکھائی دیتا. مشرف دور کی کرپشن اور اس کے ظالمانہ اقدام قصہ پارینہ بن کر ماضی کے قبرستان میں دفن ہو چکے ہیں .سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے کے حوالے سے کیس بھی کہیں دفن ہو چکا. عقیل کریم ڈیڈی جیسے لوگوں کی کرپشن پر کاروائی تو دور کی بات اس پر کسی بھی قسم کی کرپشن کا سوال اٹھانا بھی ناممکن دکھائ دیتا ہے. بڑے بڑے سرکاری منشیوں کے بنگلوں اور بے نامی جائیدادیں بھی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے عدلیہ یا میڈیا کو نظر نہیں آتیں.
وطن عزیز کی سب سے بڑی بزنس ایمپائر چلانے والی قوتوں پر تو خیر اب سوال اٹھانا بھی جرم ٹھہرا. لے دے کر نواز شریف عمران خان اور آصف زرداری عوام کی تفریح طبع اور وقت گزاری کے سامان کے طور پر حاضر ہیں کیونکہ ان سے جتنا مرضی اختلاف ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ سیاستدان ہیں. لولی لنگڑی جیسی بھی سہی جمہوریت کے نام لیوا ہیں اس لیئے ان پر تنقید سے نہ تو ملکی وقار پر کوئی آنچ آرہی ہے اور نہ ہی ان کی تضحیک کرنے سے جمہوریت کا برا تصور ابھرتا ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف کرپشن اور احتساب کے بیانیہ کو مضبوط کرنے والے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے مداری اکثر نادیدہ قوتوں کی تال پر رقص کرتے ہوئے یہ حقیقت بھول جاتے ییں کہ خود ان کے اپنے ٹی وی چینل مالکان یا اخباری مالکان زیادہ تر سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں. سیاستدانوں کی ہوشربا کرپشن کی فرضی داستانیں سننے والے عام عوام بھی بھی خوب ہیں. پلاٹوں پر قبضے، تعمیرات میں دو نمبر سیمنٹ و بجری، اشیائے خوردونوش میں ذخیرہ اندوزی اور مضر صحت اشیاء فروخت کرنا، جعلی ادوایات بیچنا، ملازمت میں غفلت کام چوری یا کمیشن و رشوت کھانا، تعلقات کے دم پر اپنے بیٹے بھائی رشتہ دار کو ملازمت یا بزنس دلوانا یا پھر اپنے اپنے کاروبار میں ہر ممکن طریقے سے دو نمبری کرنے کے بعد اور ٹیکس چوری کرنے کے بعد، یہ عوام انتہائی اطمینان سے اور کمال ڈھٹائی سے نہ صرف کرپشن اخلاقی بدعنوانی اور قانون کے احترام پر ہمہ وقت بھاشن دیتی اور سنتی ہے. بلکہ انتہائی آسانی سے تمام کرپشن کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ڈالنے کے بعد اپنے آپ کو سفید قسم کے فریب میں مبتلا بھی رکھتی ہے . اس عوام کا یہ ماننا ہے کہ اگر حکمران ٹھیک اور ایماندار ہوں یا ان کا احتساب ہو تو ملک سے کرپشن خود بخود ختم ہو جائے گی.
گویا کہ جیسے نواز شریف عمران خان یا آصف زرداری خود اس عوام کو ڈنڈے کے زور پر ذخیرہ اندوزی کرپشن رشوت اور دھونس کا حکم جاری کرتے ہوں. اب جو معاشرہ بچوں کے دودھ تک میں ملاوٹ کا عادی ہو جہاں بستر مرگ پر پڑے مریض کو ادوایات جعلی ملیں یا نجی ہسپتال اس کی لاش سےبھی پیسہ بنانے کا سوچیں.جہاں بجٹ کے سیلز ٹیکس لاگو ہونے سے پہلے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھا کر اربوں روپیہ روزانہ کی بنیاد پر کمایا جاتا ہو، جہاں کے زیادہ تر افراد کے نزدیک زندگی کا مقصد اور کل حاصل کسی بھی قیمت پر ایک سرکاری یا اچھی نجی نوکری کر اخلاقیات و قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایک گھر یاپلاٹ کا حصول ہو وہاں آپ سیاستدانوں کو چھوڑ کر آسمانوں سے فرشتے بھی نظام چلانے کیلئے لا کر بٹھا دیں تو وہ فرشتے بھی معاشرے کی رگ رگ میں بسی کرپشن رشوت خوری حرام خوری کی عادات کو تبدیل نہیں کر پائیں گے.
خیر بات شروع ہوئی تھی جوائنٹ انویسٹگیشن ٹیم اور سیاستدانوں کے احتساب کے حوالے سے. یہ اچھی ریت ہے سیاستدانوں کا احتساب ضرور ہونا چائیے. سیاستدان تو بہرحال آمروں کے ادوار میں قربانیاں دیکر اور ہر آن ایک تنے ہوئے رسے پر چل کر اقتدار کے مسند تک پہنچتے ہیں. اگر احتساب ہونا ہی ہے تو پھر ملک کی تمام مقتدر قوتوں اور اداروں کا بھی احتساب ہونا چائیے اور ایک احتساب معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کا بھی ہونا چائیے. ہمارے معاشرے کے مجموعی کھوکھلے رویوں اور ہر ممکن طریقے سے قانون و اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے اور اپنے لیئے ہر قسم کی مالی و اخلاقی کرپشن کو جائز قرار دینے سے متعلق بھی احتساب ہونا چائیے .اپنے آپ سے نگاہ ملا کر ایمانداری سے بتائیے کہ کیا آپ میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ ان رویوں اور کرتوتوں کیلئے آپ کسی جے آئی ٹی میں پیش ہو سکیں؟