سانجھے دکھ

Sorrow

Sorrow

تحریر : افتخار چودھری
بڑی دفعہ سوچا کہ اگر ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو باپ کے پیروں کے نیچے کیا ہو گا اس سوال کا جواب ہنوز نہ دارد جو کچھ میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا وہ تو سچ ہے اور ایسا سچ کہ جس کے اوپر شک کرنے سے ایمان ریزہ ریزہ ہو سکتا ہے۔ جس دن ماں گئی اس دن اس دنیا کی رونق چلی گئی تھی اور جب والد محترم گئے تو ایسا لگا سر سے چھائوں چلی گئی کوئی صاحب فرما رہے تھے ماں باپ کے چہرے کو مسکرا کے دیکھنا دو عمرے کے ثوابوں کے برابر ہے۔ماں باپ سے محروم لوگ جیتے جاگتے ہمیں ہنستے کھیلتے نظر آتے ہیں لیکن کبھی ان سے کوئی روک کر پوچھے کہ کیسے ہو؟ وہ پھر بتائے گا کہ جاڑے کی سردیوں میں چولہے کے پاس بوری پر بیٹھ کر ماں کے کی پکائی ہوئی سوکھی روٹی کا سواد فائیو سٹارز کے کھانوں سے کتنا بہتر ہے۔جب ماں اور باپ چلے گئے ہمیں تو بد قسمتی سے ماں جائیوں کے مکمل احوال دریافت کرنے کا ہنر بھی نہیں یاد رہا۔چلتے پھرتے دکھی لوگ اس دور میں کسی کے پاس کسی کو روک لینے کا وقت ہی نہیں ہے۔اب کچھ دیر پہلے کھڈ گجراں ضلع کوٹلی آزاد کشمیر سے جاوید اقبال بھڈانوی کے والد محترم چودھری خوشی محمد کا جنازہ پڑھ کے آیا ہوں جنازہ تو کل ہی ہو گیا تھا رات رکنے کا اسرار تھا رک گیا۔برادر اطہر چودھری کے خوبصورت گھر میں اسی کمرے اور بیڈ پر جہاں صاحبزادہ اسحق بھی متعدد بار رک چکے تھے میرا قیام رہا۔میرے اس کالم سے میرے وہ ہزاروں دوست مستفید نہ ہو پائیں جو تیز طرار جملوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔قبلہ خوشی محمد کی عمر ایک صدی کے قریب تھی وہ بڑی تندرست زندگی گزار رہے تھے اچانک طبیعت خراب ہوئی اور مالک حقیقی سے جاملے۔ایسے موقعوں پر یہی کہا جاتا ہے کہ ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹنے والے ہیں۔اتوار کی صبح پروگرام تھا کہ برادر چودھری اعجاز احمد چودھری آف منڈی بہائالدین کے ہاں ناشتہ ہے جس کی دعوت مجھے اگلی رات کو ملی تھی۔ان کی جانب جانا نہ ہوا ۔تحریک انصاف میں ان کی آمد کے بعد دل کرتا تھا کہ ان کے پاس جا کر مبارک باد دوں برادر افتخار قیصرانی جو ان کے دیرینہ دوست ہیں ان کے ساتھ پروگرام بناتا رہا اس بار خیال تھا کہ جائوں کی صبح ہی بہو نے بتایا کے کہ جاوید بھڈانوی کے والد اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اور ان کا جنازہ تین بجے کھڈ گجراں میں ہے۔جاوید سے میرے تعلق دیرینہ ہیں ١٩٩٠ میں وہ جدہ تشریف لائے تو اس وقت وہ پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم کے ذمہ دار تھے پاک کشمیر گجرز فورم کے چیئرمین کی حیثیت سے استقبالئے میں انہیں خوش آمدید کہا۔پھر یہ تعلق اور مضوط ہو گیا جب میں اپنے بھانجے کی رسم نکاح ادا کرنے بنی حافظ میں صاحبزادہ اسحق ظفر کے ہاں پہنچا تو وہاں اسقبال کرنے وعالوں کی صف میں انہیں دیکھا۔صاحبزادہ اسحق ظفر سے یہ میرا رشتہ ہے کہ میرے بھانجے ماجد مختار گجر کی شادی ان کے ہاں ہوئی ہے اور یہ رشتہ سیاسی تھا میرے مرحوم بھائی پیپلز پارٹی کی فیڈرل کونسل کے رکن تھے اور صاحبزادہ صاحب آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے تھے۔

میں آج تک کشمیر کے اس حصے کی طرف نہیں گیا جنت نظیر وادی چیڑ اور سنتھے کے درخت ،بوٹیاں کومیلے اور مرون کے ننھے منے درخت،چشموں کا پانی وادی کی جانب چوٹیوں سے سے اتری سانپ کی طرح بل کھاتی سڑکیں۔٢٠١٥ میں کچی سڑکیں پوچھنے پر جائوں کا راج رہا ہے جو کسی غریب کے گھر میں چولہہ جلتا دیکھ کر جل جایا کرتے تھے۔پیپلز پارٹی یہاں زرداری کی پارٹی نظر نہیں آتی مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جب ایک طرف مسلم کانفرنس میں راجے مہاراجے چھائے ہوئے تھے جاٹوں اور راجپوتوں کی کامڈ تھی تو اس وقت یہاں کے پسے ہوئے طبقے نے ذوالفقار علی بھٹو کی آواز پر لبیک کہا اس پارٹی کو اس سمے صاحبزادہ اسحق ظفر جیسے لوگ مل گئے۔بعد میں نوجوان طبقہ ان کے ساتھ ہو لیا۔میں نے محسوس کیا کہ نوجوان بڑی شدت سے منتظر ہیں کہ تحریک انصاف وہاں داخل ہو۔خود مجھے بہت سے جوانوں نے کہا کہ آپ کب تحریک کو یہاں مضبوط کر رہے ہیں۔بھٹو کے بعد اگر کسی لیڈر نے کشمیریوں کو متاثر کیا ہے تو وہ عمران خان ہے۔

جہاں جنازہ تھا وہ روڈ کے بلکل نزدیک تھا۔بے شمار لوگ تھے۔مجھے کہنے میں باک نہیں کہ پولیس نے انتہائی اعلی انتظامات کر رکھے تھے۔انہوں نے کسی لمحے بھی ٹریفک کو رکنے نہیں دیا سرخ و سفید اور چاک و چوبند پولیس نظر آئی گرچہ کچھ بڑی توندوں والے بھی تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ پنجاب پولیس کی طرح کچھ دانے ادھر بھی ہیں۔البتہ مجموعی طور پر خوبصورت پولیس کہی جا سکتی ہے۔پارکنگ کئی ایک جگہ پر بنائی گئی تھی بھڈان تک صرف فیملیز والی گاڑیوں کو جانے دیا گیا۔جنازہ اوپر سڑک کے نزدیک ہی جگہ پر پڑھایا گیا وہیں مجھے عزیزم طارق جو ہمارے صوفی بشیر صاحب آف جدہ کے صاحبزادے ہیں وہاں مل گئے عزیزم عبدالرحمن بھٹو کے ملنے کے بعد تو دوستوں کی اک بڑی تعداد مل گئی جو جدہ میں میرے ساتھ پاک کشمیر گجرز فورم کے پلیٹ فارم پر متحرک رہی تھی۔ جنازے سے پہلے چند اصحاب نے مرحوم کے بارے میں اظہار خیال کیا جن میں میرے دیرینہ دوست مطلوب انقلابی ،رفیق نئر سابق قاضی چودھری بشیر اور دیگر نے اظہار خیال کیا۔خوشی صاحب کی عمر سو برس کے قریب تھی۔ان کی محنت سے بھر پور زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی۔تذکرہ کیا تھا ایک محنت کش کی داستاں تھی جس نے رزق حلال سے بوٹے لگائے جن کی خوشبو سے پوری وادی بلکہ پورا کشمیر معطر ہوا۔

Politics

Politics

سیاست میں مخالفت اپنی جگہ مگر اچھے لوگ کسی بھی جماعت پارٹی کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں میں نے کشمیری قیادت سے بڑا قریب کا تعلق رکھا۔جدہ میں اشفاق سیٹھی رفیق عارف سردار چودھری محمد عالم شبیر گجر حافظ عبدالخالق صوفی بشیر عبدالرحمن بھٹو ضمیر بجاڑ محفوظ چودھری اور بے شمار دوستوں سے تعلق رہا جن میں عبداللطیف عباسی محمد حفیظ زرین محمد اشفاق راجہ اکرم راجہ الطاف اور دیگر شامل ہیں یہ عظیم دوست جن میں عزیز بھائی ماسٹر محبوب بھی شامل ہیں یہ محفل آرائی کے فن سے تو آشناء ہیں ہی انہیں عزت کرنی اور کروانی بھی آتی ہے۔میری سیاست بھائی چارے میں سے اگر یہ دوست نکال لئے جائیں تو نتیجہ زیرو ہے حساب دوستاں چکائوں تو تو ایک لمبی فہرست ہے یہ صرف کشمیری بھائیوں کی بات کی ہے۔ واہ واہ!آشنائیاں کیا کیا شبیر گجر چودھری اسلم اور ان کے ساتھ گزارے دن۔پرسوں جناز گاہ کے کونے میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیا لوگ مجھے بھی اسی پیار سے رخصت کریں گے؟کیا ہمارے لئے بھی کوئی روئے گا؟بر مزار ما غریباں نئے چراغے نئے گلے۔بھولیا قبر مل جائے تو وہ بھی بڑی بات ہے تو اس رقنق کی کیا سوچتا ہے۔خوش نصیب ہیں وہ بیٹے جن کے کندھوں کو باپ کا بوجھ نصیب ہوتا ہے اور بد نصیب ہے وہ باپ جو بیٹے کا بوجھ اٹھاتا ہے۔آج گاڑی کا شیشہ ڈائون کیا تو تو بے ساختہ جاوید اقبال بھڈانوی کو یہی جملے کہے۔

کشمیری کبھی اکیلا نہیں کھاتا ٧٧ کی دہائی میں مجاہد نامی ایک شخص نے HOCHTIEF کمپنی میںچند ہزار لوگ جدہ ائر پورٹ بنانے کے لئے سپلائی کئے پھر ہر ایک نے اپنے عزیزوں کی لائن لگا دی آج یہاں کے ہر گھر کے ایک سے زیادہ لوگ باہر ہیں اللہ سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں میں امن رکھے جہاں لاکھوں پاکستانی حلال کما رہے ہیں اور ان ظالموں کا بھی پیٹ بھر رہے ہیں جنہوں نے حلال کمانے کو حرام سمجھ رکھا ہے۔رب ذوالجلال ہماری سنے تو غریبوں کے منہ سے لقمہ چھیننے والے پھٹیں اور ان کے چیتھڑوں سے محلات کی دیواریں گندی ہوں۔ کشمیری تارکین وطن نے باہر بھی مردہ دلی سے وقت پاس نہیں کیا آج یہ لوگ اس ملک کو لوٹا رہے ہیں اسلام آباد میں عالی شان شاپنگ مال جو اس شہر کی ایک وزیٹنگ پلیس بن گیا ہے وہ بھی کشمیر کے فرزند نے دیا ہے۔ لوگ تقریریں کر رہے تھے میں عزیزم جاوید کو دور سے دیکھ رہا تھا۔دو جناز ے پڑھائے گئے۔مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ جنازے کو تھوڑی دیر کے لئے کندھا بھی دیا۔ تدفین کے وقت واپسی پر برادر مطلوب کی گاڑی میں بیٹھ گئے برادر کٹاریہ بھی اسی گاڑی میں تھے جاوید بھڈانوی بھی ۔نیچے بھڈان موڑ تک ہم اسی گاڑی میں آئے۔پائوں کی ہڈیوں میں سخت تکلیف کے باوجود میں نے قبرستان جو ان کے گھر کے پچھواڑے میں تھا تک سفر کیاتادیر ادھر رہے۔مجھے بہت سے لوگوں کے نام یاد نہیں جی تو چاہتا ہے کہ ان سب کے نام لوں مگر ان کے روشن باریش اور خوبصورت چہرے میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ایک بات میں نے نوٹ کی سب لوگ بند جوتے پہنے ہوئے تھے تسمے والے بوٹ یا مکیشن ہزارے وال چپل کسی نہیں پہن رکھی تھی۔لینڈ اسکیپ بلکل ہزارے جیسا تھا۔نوجوانوں کو بڑا ملنسار پایا۔ مطلوب بڑے دیالو دکھائی دیے فقیروں میں رقم بانٹتے دکھائی دیے۔سعودیہ کا مال ہے اللہ ماسٹر محبوب جیسے بھائی سب کو دے۔مطلوب اور جاوی کے پیچھے سے مکہ کرمہ اور دبئی میں موجود بھائی نکال لئے جائیں تو شاید وہ بھی ادھر ہی کہیں ہوتے متفق اور متحد بھائیوں کے فیصلوں نے سیاسی سومنات گرائے۔

میں اس کالم میں حسن رنگ خوشبو ہوائے یاسمین و ورد عطر و چنبیلی بھرنا چاہتا ہوں اس لئے کہ والد صاحب کو اس دنیا سے گئے ٢٥ سال ہونے کو ہے ان کی خوشبو میرے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ہم سیاسی طور پر جہاں بھی کھڑے ہوں ان رشتے ٹوٹنے پر سانجھے دکھوں کے وارث بن جاتے ہیں اس عظیم رشتے کے بچھڑنے پر میرے سانجھے ساتھیمیرے بھانجے عابد مختار گجر ماجد مختار گجر بھی تھے واپسی پر صاحبزادہ منظور صاحب ساتھ ہو لئے اشفاق ظفر سے گپ شپ رہی۔صاحبزادہ صاحب کمال کے آدمی ہیں کہنے لگے دنیا چلو چلی کا میلہ ہے اچھے اور نیک لوگ اپنے پیچھے نیک اولاد کا ورثہ چھوڑتے ہیں۔لیکن ہمارے جیسے لوگ سبق نہیں سیکھتے فرمایا زمین سورج کے گرد چکر ٣٦٠ دنوں میں مکمل کرتی ہے اور انسان اپنی ساٹھ یا ستر سالہ زندگی میں ایک پاپی پیٹ کا چکر کاٹتا رہتا ہے اور ایک دن ہوتا ہے وہ اسی پیٹ سمیٹ قبر کے گھڑے میں دھنس جاتا ہے اس دوران بہت سے لوگ بعد میں دعا کرنے بھی آئے۔جن میں صاحبزادہ ذوالفقار بھی تھے نوجوان پیار کرنے والے ایڈوکیٹ نذیر بھی ہمیں کمپنی دیتے رہے چودھری منیر جن کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ بیوروکریٹ ہیں ان کے ساتھ مکالمہ بھی بہت اچھا تھا۔اس سفر میں مجھے احساس ہوا کہ تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات ہونا بھی ایک اچھا تعارف ہے مگر روز نامہ جموں کشمیر اور دیگر اخبارات کے کالم نویس کی حیثیت سے لوگ مجھے بہتر جانتے ہیں۔ پائوں میں سخت تکلیف ہے میں وعدہ کر کے آیا تھا لفظوں کی چند سطریں میں ان سانجھے داروں کے ساتھ شیئر کروں گا۔ سنا ہے یہ زمین پر جگنو در اصل ان نیک بندوں کی قبروں پر سلامی پیش کرنے رات کو آتے ہیں۔سارے جگنو سارے تارے ان بزرگوں کے نام جو اس دنیا سے چلے گئے چاہے وہ میرے ہوں خالد گردیزی کے ہوںآپ کے ہوں یا جاوید بھڈانوی کے ۔اللہ ان کے مرحوم ماں اور باپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے آمین۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : افتخار چودھری