تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر اکثر ایک سوال کیا جاتا ہے کہ نیا ادب آج کل انحطاط پذیر کیوں ہے؟ نئے افکار، نئی سوچ اور نئے تخیلات کے حامل لکھاری آخر آگے کیوں نہیں آ رہے ؟؟؟ ان کی راہ میں آخر کون سی ایسی رکاوٹ ہے جس کو ہٹایا جانا مشکل تر بنا ہوا ہے؟؟؟ بالخصوص کالم نگاری کے میدان میں چند افراد ہی کیوں نظر آ رہے ہیں جن کی تحریریں ہمارے مئوقر اخبارات کی زینت بنی ہوئی نظر آرہی ہیں؟؟؟ میں کافی دنوں کی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچ پایا ہوں کہ مخصوص دنوں پر لکھنے والے معززین نے ایک بڑا خوبصورت اسلوب اپنا رکھا ہے کہ برسوں پہلے لکھے ہوئے کالم اپنے بڑے نام کی وجہ سے کئی سالوں سے تواتر کے ساتھ معمولی رد و بدل کے ساتھ چھپوائے چلے جا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر مزدور کا عالمی دن ،کسان کا عالمی دن ،خواتین کا عالمی دن ، انڈوں کا عالمی دن ، چڑیوں کا عالمی دن ،فاختہ کا دن ،دریائوں کا عالمی دن ، نہروں کا عالمی دن، بچوں کا عالمی دن ( ، انڈوں کا عالمی دن ، چڑیوں کا عالمی دن ،فاختہ کا عالمی دن ،دریائوں کا عالمی دن ، نہروں کا عالمی دن اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ میں کوئی مذاق نہیں کر رہا ہوں)چودہ اگست ،تئیس مارچ ،اکیس اپریل ،گیارہ ستمبر ،نو نومبر ،پچیس دسمبر ،سولہ دسمبر (جو سقوط ڈھاکہ اور سانحہ آرمی پبلک سکول سے منسوب ہے )ان مخصوص دنوں کے حولے سے اپنے لکھے ہوئے اولین کالم ہی بار بار تھوڑی سی تراش خراش کے بعد پبلش کروائے چلے جا رہے ہیں کوئی ان سے یہ نہیں کہتا کہ جناب عالی! یہی کالم آپ پچھلے کئی سالوں سے بار بار بھیج رہے ہیں۔ اس میں کوئی نئی بات تو ہوتی نہیں اور اگر بد قسمتی سے کوئی پوچھنے کی جسارت کر بھی لے تو بڑی عجیب سی منطق سے مزین جواب دیا جاتا ہے۔
عالمی دنوں کے حوالے سے لکھنے والے قلم کار صاحبان جو دلیل دیتے ہیں مخصوص دنوں کے مخصوص مضامین کی۔۔۔ وہ کئچھ اس طرح ہوتی ہے کہ دیکھو بھائی تمہیں تو عقل ہی نہیں جو ایسے بے تکے سوال کو لے کر بیٹھ گئے ہو دیکھو ! سانحہ اے پی ایس سولہ دسمبر کو ہوا اس کو ہم پندرہ یا سترہ دسمبر تو لکھنے سے رہے اور اس میں معصوم شہداء بشمول اساتذہ اگر ایک سو چالیس ہیں تو انہیں بھی ہم ایک سو تیس یا ایک سو پچاس تو نہیں لکھیں گے۔ کالم میں نئے اعداد وشمار کیسے داخل کریں؟؟؟ ۔واہ صاحبان قلم !کیا خوب نرالی منطق تلاش کی ہے آپ نے؟؟؟ آپ کو داد دینی پڑے گی آپ کی فہم و فراست سے لبریز دلیل کی ۔کیا کہنے آپ کے ۔سانحہ آرمی پبلک کے مضمون میں یہ تو آپ لکھ دیتے ہو کہ دہشتگرد سکول میںایسے داخل ہوئے ،ایسے انہوں نے معصوم بچوں پر گولیوں کی شکل میں قیامت برپا کی جس کے نتیجے میں کل اتنی شہادتیں ہوئیں ، ایسے آرمی پہنچی اور پھر کس طرح آرمی کے جوانوں نے ان درندہ صفت وحشی دہشتگردوں کو واصل جہنم کیا اور بس یہی ہوتا ہے میرے معزز قلم کار دوستوں کا مضمون ۔۔۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے مضامین میں اس دن کے حوالے سے جہاں اس واقعے کی عکاسی بزور قلم کرتے ہیں وہاں اس واقعے کے محرکات کو بھی رقم کریں وہاں اس سانحے کے بعد رونما ہونے والے اثرات کو بھی قبضہ تحریر میں لائیں وہاں یہ بھی لکھنے کی ہمت کریں کہ ان معصوموں کی شہادت نے اختلافات میں الجھی ہوئی قوم کو یکجا کردیا ،دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل احتجاجی دھرنا ختم ہوا ان بچوں کی شہادت نے اپنا خون دے کر تمام ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں کو محفوظ کر دیا ۔حکومت کو تمام تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لئے اقدامات عمل میں لانا پڑے۔
Writer
ایک پرانا لکھا ہوا کالم ہی بار بار چھپوا کر ہم دنیا کو کیا دکھنا چاہتے ہیں کہ ابھی تک ہم رٹہ سسٹم سے باہر ہی نہیں نکل پائے ۔۔۔ہمارے پاس اس سانحے وقوع پذیر ہونے کے بعد ساری قوم پہ کیا اثرات مرتب ہوئے اور اس کے پیش نظر ہمارا آئیندہ کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا اور اب تک اس سانحے کی وجہ سے کیا تبدیلیاںہوئی ہیں۔۔ نہیں لکھا ہوتا ۔کبھی ان محترم لکھاری صاحبان نے اپنے قلم کے ذریعے اپنے قومی اور ملی فریضے کا احساس اجاگر کرنے کی کو شش کی اپنی قوم کے ذہنوں میں؟؟ ؟معذرت کے ساتھ میں سینئر لکھاریوں سے دست بستہ ایک گزارش کروں گا کہ آپ پربحیثیت قلم کار بہت سی قومی اور ملی ذمہ داریاں ہیں َ۔کیا کبھی ان کو پورا کرنے کے لیے کبھی آپ نے زندگی میں کوئی نیا کالم بھی لکھا ہے ؟؟؟جن میں سے سب سے اہم ذمہ داری نسل نو کی آبیاری ہے ان کو یہ شعور دینا ہے کہ ہمارے بعد بذریعہ قلم آپ کو کس طرح اپنے فرائض سے عہدہ براہ ہونا ہے اس لیئے نوجوان نسل کو اپنی ہمراہی میں قلم قبیلہ میں شامل کرنا ہے تاکہ وہ مستقبل میں آپ لوگوں کا پرتو دکھائی دیں ۔۔۔ نہ کہ آپ یہ کریں کہ اپنا پرانا مواد چھپوا کر نہ خود کچھ نیا تخیل دیںاور نہ ہی کسی نئے کے تخیلات کو قوم کے سامنے آنے دیں۔ کیا آپ اپنے اس خود غرضانہ طرح کے رویے سے نوجوان نسل کو ادب سے دور نہیں کر رہے ؟؟؟ کیاآپ اپنے اس طرز عمل سے اچھے ادب کے راستے کی دیوار نہیں بن رہے ؟ذرا سوچیں ۔اسی طرح سقوط ڈھاکہ ہوئے پنتالیس سال بیت گئے ہم ابھی تک صرف یہ کہے چلے جا رہے ہیں کہ سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا پاکستان دو لخت ہو گیا ذرا غور کریں کیا اس کے اثرات ابھی تک بنگلہ دیش میں آپ کو دکھائی نہیں دے رہے ؟ میرے جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلافات تو ہو سکتے ہیں مگر ان کے راہنمائوں کو محب وطن ہونے کے جرم میں ابھی تک پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔
اب بھی انہیں وطن پرستی کے جرم میں مصلوب کیا جا رہا ہے۔ کبھی لکھا میرے کسی محترم صاحب قلم نے اس بارے میں؟؟؟ کبھی اپنی قوم کو اس واقعے سے آگاہ کرتے ہوئے زمانہ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا ہے پنے کالمز میں؟؟؟ اس طرز عمل کو کیا نام دیا ہے جائے؟؟؟ حالات سے لاعلمی ؟؟؟ ذخیرہ معلومات کی کمی ؟؟؟یا یہ سمجھا جائے کہ آپ حضرات کرنٹ افیئرز پر لکھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہیں؟؟؟ کیو نکہ امسال آپ کی کوئی ایک تحریر بھی کرنٹ افیئرز پر نظر نہیں آئی۔ خدا کے لئے ایسا کرنے سے بہتر ہے کہ یا تو حالات حاضرہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے قلم کو زحمت دیا کریں اگر ایسا نہیں کر سکتے تو قلم کی حرمت کو پامال نہ کریں۔ آپ لوگ فلاں ڈے فلاں ڈے فلاں ڈے کے چکر سے نکل کر بھی کبھی کچھ اپنے خیالات کو قوم کے سامنے لا کر قوم کی راہنمائی کرنے کی جسارت کر لیا کریں۔ میں نام لئے بغیر کچھ دوستوں کی خدمت میں عرض کروں گا کہ دیکھیں پچھلے دنوں پانامہ کا ایشو زوروں پر تھا بلکہ ابھی تک ہے مگر میرے چھ سات معزز قلم کار دوست ایسے بھی ہیں جنہوں نے قلم اٹھانا تو دور کی بات اس معاملے پر قلم کو جنبش تک دینے کی بھی ہمت نہیں کی ،ابھی حال ہی میں پلی بار گیننگ کا معاملہ اٹھا تو مخصوص دنوں کے لکھاری اپنے مخصوص انداز میں چپ سادھے بیٹھے رہے ،کوئٹہ کمشن کے فیصلے پر اس کے حق میں یا اس کی مخالفت میں ان مخصوص دوستوں نے اپنی خاص روش نہ چھوڑتے ہوئے کچھ بھی لکھنا گوارا نہ کیا ، نیوز لیکس کے معاملے میں بھی میرے یہ صاحب طرز لکھاری کچھ نہ کہہ پائے ،قطری شہزادے تلور سمیت بہت سا شکار کھیل کر چلتے بنے مگر مخصوص دنوں کے اسیر یہ لکھاری یہاں بھی خاموش رہے۔
پی آئی اے کے طیارے کو اتنا بڑاحادثہ پیش آیا اس پر بھی ان کے قلم کی آنکھ سے آنسو رواں نہ ہوئے ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ نئے سرے سے لکھنا پڑتا اپنے دماغ پر کچھ قومی درد کے حوالے سے زور دینا پڑتا ان مخصوص دنوں کے مخصوص لکھاریوں نے سوچا اب تو ہمارا نام بکتا ہے اور مواد پہلے ہی اتنا لکھ چکے ہیں کہ نئے سرے سے کچھ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہم چند سطور یا عنوان بدل کر کالمز بھیج دیتے ہیں اور کسی بھی ایڈیٹر نے کالم پڑھے بغیر صرف ہمارا نام دیکھنا ہے اور کالم پبلش ہو جانا ہے۔ یہی وہ زعم ہے جس کے بل بوتے پر چند معززین صحافت کچھ نیا لکھنے کی سعی ہی نہیں کرتے ۔ ارے بابا کرنٹ افیئرزپر کیوں نہیں لکھتے ہو ؟ اگر لکھنا آتا ہے آپ کو تو کوئی ایک آدھ کالم لکھ کر قسم ہی توڑ دیں مگر نہیں آپ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ حالات حاضرہ پر لکھنا کوئی ” خالہ جی کاواڑہ ” نہیں۔ ا گر آپ لوگوں میں لکھنے کی صلاحیت ہے تو پھر سالوں پہلا مواد چھپوا کر اپنے ہی نام پر بٹا کیوں لگا رہے ہو ؟؟؟ اگر آپ نیا اور بہترین لکھنے کی صلایتوں سے مالا مال ہو تو پھر اس رٹا سسٹم پر اصرار کیوں؟؟؟ اگر آپ کرنٹ افیئرز پر لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں تو پھر یہ ڈرامہ بازی بھی بند کر دیں۔ ایڈیٹرز کی مصروفیات سے ناجائز فائدہ اٹھانا چھوڑ دیں۔ معزز بھائیو! یہ لنڈے کا مرمت شدہ کوٹ آخر کب تک زیب تن کئے رہو گے کچھ نئے افکار سے مزین کالمز بھی تخلیق کر لو ۔میں تو یہی گزارش کروں گا کہ اپنے افکار و تخیلات اور اپنی تخلیقات کو نئے لباس سے آراستہ کرو پرانے مواد کا حامل بوسیدہ لنڈے کا کوٹ اب اتار ہی پھینکو۔
M.H BABAR
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile ;03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com