صحافت کے رنگ، رنگیلا کے سنگ

Azhar Rangeela

Azhar Rangeela

آج کل کے دور میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے وہاں خوشگوار لمحات کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس مصروف زندگی ہرکسی کے پاس اتنا وقت میسر نہیں ہوتا کہ وہ سیر و تفریح کرتا پھرے لیکن کبھی کبھار ایسا موقع ملتا ہے کہ بندہ اس پروگرام سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت مجھے بھی ملی۔ اتفاق سے جس دن یہ پروگرام منعقد ہونا تھا وہ اتوار کا دن تھا۔ جب مجھے اس پروگرام میں شرکت کرنے والوں کا علم ہوا تو دل باغ باغ ہو گیا کیونکہ اس پروگرام میں پاکستان بھر سے صحافت سے منسلک لوگوں نے شرکت کرنا ہے۔

پاکستان کے مختلف اخبارات میں لکھنے والے کالم نویس بھی اس پروگرام میں مدعو تھے اور ان سب سے بڑھ کر ایک ایسی بھی ہستی تھی جس کا نام سن کر اس پروگرام میں شرکت کرنے انتظار بڑی شدت سے ہونے لگا۔ جی وہ نام کامیڈی کنگ اور فلم سٹار اظہر رنگیلا کا ہے۔

اتوار کے دن میں اور میرا دوست رانا شرافت پروگرام میں شرکت کے لیے لاہور روانہ ہوئے توسردی نے بھی اپنا آپ دکھانا شروع کر دیا۔ مون مارکیٹ کی ایک ہوٹل میںآن لائن نیوز نیٹ ورک کا ایک بڑا نام پاک نیوز لائیو کی دوسری سالگرہ کا پروگرام منعقد ہو رہا تھا۔

پروگرام میں پشین سے لیکر اسلام آباد تک سے صحافی حضرات آئے ہوئے تھے۔ سب سے تعارف ہوا اور اس کے بعد گپ شپ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ محفل ابھی گرم ہونا شروع ہوئی تھی کہ اعلان ہوا کہ پروگرام کے پہلے چیف گیسٹ تشریف لے آئے ہیں۔ یہاں یہ بتاتا چلوں اس تقریب میں تین مہمان خصوصی مدعو تھے۔

تقریباً ایک بجے پروگرام کے پہلے چیف گیسٹ مجتبیٰ رفیق صاحب تشریف لائے۔ وہ کراچی سے سپیشل اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے آئے تھے۔ مجتبیٰ رفیق وہ نام ہے جس نے 28 مئی کو جب میاں نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کئے اور بعد میں انہوں نے اپنی عوام سے رائے لی کہ اس دن کو کس نام سے یاد کیا جائے؟ تب اس نوجوان نے جو اس وقت لندن میں مقیم تھا وہاں سے اس دن کا نام ”یوم تکبیر”تجویز کیا تھا۔

جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے پاس میاں نوازشریف کا بھیجا ہوا وہ تعریفی سند آج بھی محفوظ ہے۔ مجتبیٰ رفیق کا جذبہ محبت پاکستان لندن میں اس قدر بڑھ گیا کہ وہ لندن چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہو گیا۔ پھر پاکستان میں وائس آف یوتھ کے نام سے سماجی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ اسکی محنت ابھی یہاں پر ہی ختم نہیں ہوئیں بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور اعزازسے نواز دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نواسے اسلم جناح نے اپنے بڑھاپے کی وجہ سے اپنی خاندانی سرگرمیاں ان کے سپرد کر دیں۔ انہوں نے مجتبیٰ رفیق کو جناح کیپ دی اور ساتھ ساتھ قائد اعظم سے وابستہ تمام پروگرام ان کے سپرد کر دئے مثلاً 25 دسمبر یا 11 ستمبر کو مزار قائد پر ان کے خاندان کی طرف سے چادر اب مجتبیٰ رفیق چڑھایا کریں گے۔

دوسرے مہمان ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب اسلم ڈوگر تھے جنہوں نے اس پروگرام میں شرکت کر کے محفل کو چارچاند لگا دیے۔ تیسرے مہمان خصوصی وہ تھے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ دکھی لوگوں کو خوش کرنا جس کا کام”اظہر رنگیلا ”جن کا نام اس کے بعد باقاعدہ پروگرام شروع ہوا۔ تلاوت کے بعد ایڈیٹر صاحب نے استقبالیہ پیش کیا اور آنے والے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔

پاک نیوز لائیو کی ٹیم نے حسب روایت اپنے نمائندگان میں ایوارڈ تقسیم کیے۔ ایک چیز جو اس پروگرام میں سب سے الگ نظر آئی وہ یہ کہ انہوں نے کالمسٹ لوگوں میں بھی ایوارڈ تقسیم کیے۔ اس کے بعد مہمانان گرامی نے اپنے اپنے انداز میں پاک نیوز اور پروگرام کی تعریف کی۔

Rangeela

Rangeela

اظہر رنگیلا جو شکل و صورت سے بلکل رنگیلے کی کاپی نظر آتے ہیں ان کو اکثر لوگ رنگیلا کا بیٹا سمجھتے ہیں مگر انہوں نے بتایا کہ میں بیٹا نہیں بلکہ بیٹوں کی طرح کا ان کا شاگرد ہوں انہوں نے اپنے مزاحیہ انداز سے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کیے رکھا۔ ایک موقع پر جب وہ پاک نیوز کے نئے لوگو کی رونمائی کر رہے تھے تو اس وقت لائٹ چلے جانے سے یکدم مائیک بند ہوگیا تو انہوں نے رونمائی کرتے ہوئے اپنے منہ کے ذریعے مختلف آوازیں نکال کر تمام شرکاء کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا۔

اظہر رنگیلا انتہائی ملنسار اور دل میں گھر کرنے والی شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اپنے ادکاری کے استاد بقول ان کے ”باباجی” کو بہت خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کامیڈی کے بے تاج بادشاہ رنگیلا مرحوم کی اداکاری کے وہ کارنامے اور انکی مسکراہٹ کی وہ داستاں سنائی کہ محفل میں موجود ہر شخص عش عش کر اٹھا۔ انہوں نے اپنے خطاب کے بعد اپنے استاد محترم جناب رنگیلا صاحب کا من پسند اور سپرہٹ گانا”گا میرے منوا گاتے جارے”سنا یا۔ایک لمحہ تو ایسا لگا جیسے مرحوم رنگیلا جی خود سنا رہے ہیں۔

اظہر رنگیلا کے متعلق میرے ذہن میں گمان تھا کہ شاید دوسرے اداکاروں کی طرح ان میں بھی مغروری ہو گی۔ ان کا سب سے الگ تھلک مزاج ہوگا مگر جب ان سے ملاقات کی تو ان کی شخصیت کا راز کھلا کہ وہ کس طرح لوگوں کے دل میں گھر کرتے ہیں۔ اداکاری سے تو لوگ اپنے مداحوں کے دل میں گھر کرتے ہیں مگر اظہر رنگیلا تو اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنی پرکشش شخصیت سے بھی لوگوں کے شیشہ دل میں اتر جاتے ہیں۔ انہوں نے تو پروگرام میں مہمان خصوصی ہوتے ہوئے بھی میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ انہوں نے سالگرہ کا کیک کاٹ کرخود اپنے ہاتھ سے چیف ایڈیٹر، ایڈیٹر اور دیگر مہمانوں کو کھلایا۔ پروگرام کے اختتام پر چیف ایڈیٹر وسیم نذر نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

پروگرام میں جہاں صحافی بھائیوں کے ساتھ شوبز کا اتنا بڑا نام موجود تھا وہاں کالمسٹ برادری بھی پیچھے نہیں رہی۔ وہاں پر مجھے نامور کالمسٹ جن میں سرفہرست ”کاش میں بیٹی نہ ہوتی” کے مصنف اور کالمسٹ محمدعلی رانا، کالمسٹ شیر اعوان، کالمسٹ ذیشان انصاری اور کالمسٹ اور میرے ہر دلعزیز بھائی ملک ساجد اعوان سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جن کی موجودگی نے محفل میں چار چاند لگا دیے۔

مجھے اس پروگرام میں شرکت کرنے سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ اگر کسی بھی استاد کا شاگرد اہل ہو تو وہ اپنے استاد کا نام کبھی بھی نہیں ڈوبنے نہیں دیتا۔ اظہر رنگیلا نے جب اپنے استاد رنگیلا کو جب خراج تحسین پیش کیا تو ان کی آنکھ سے آنسو نکل آئے۔ انہوں نے اپنے استاد کو کسی لمحے نہیں بھلایا اگر تمام شاگرد اپنے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اپنے استاد کوبھی یاد رکھیں تو میرا نہیں خیال کہ کبھی کوئی استاد مر کر بھی اس دنیا میں زندہ نہ ہو۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com