بیرون ملک سے شائع ہونیوالے ایک اخبار میں صحافیوں کے متعلق پاکستان کے خطر ناک ہونے کے بارے میں ایک رپورٹ میری آنکھوں کے سامنے تھی کہ بریگنگ نیوز چل پڑی کہ کراچی ایئرپورٹ پر حامد میر کی گاڑی پر فائرنگ ،حامد میر شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل۔ابھی کچھ دن قبل ایک خبر یہ ملی تھی کہ حکومت صحافیوں کو اپنی حفاطت کیلئے چھوٹے ہتھیار رکھنے کی اجازت دینے پر غور کررہی ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ صحافیوں اور صحافتی کارکنوں کے لئے تمام صوبوں میں خصوصی ہاٹ لائنوں کے قیام پر اگلے ہفتے سے کام شروع ہوجائے گا۔کمیٹی میں صحافیوں کو ذاتی تحفظ کیلئے ہلکے ہتھیار رکھنے کی اجازت دینے پر غور کرنے کا بھی کہا گیا۔ہاٹ لائنوں پر صحافی اور صحافتی کارکن کسی بھی خطرے کی صورت میں فوری طور پر فون کرکے اطلاع دے سکیں گے قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن ماروی میمن کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں تمام صوبوں کے آئی جیزکو ہدایت کی گئی کہ وہ خصوصی ہاٹ لائنوں کے قیام کے لئے فوری اقدامات کرکے کمیٹی کا آگاہ کریں ۔اس بات سے تو ہم اچھی طرح باخبر ہیں کے پاکستان میں خبر دینے والے صحافی اکثر خود خبر بنے رہتے ہیں ۔کبھی کسی صحافی کو اغوا کیا جاتا ہے ،کبھی تشدد کیا جاتا ہے اور کبھی جان سے مار دیا جاتا ہے ۔صحافت ریاست کا اہم ستون سمجھا جاتا ہے اور جب صحافی خود خبر بن جائے تو ریاست کیلئے فکر اور شرم کا مقام ہوتا ہے ۔صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹوپروٹیکٹ جرنلسٹس کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کیلئے بدترین ملک قرار دیا گیا۔جہاں صحافیوں کو کسی قانونی گرفت کے خطرے سے بالاترنشانہ بنایا جاتا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں بیس صحافیوں کو قتل کر دیا گیا لیکن آج تک کسی کے قاتل کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا گیا۔تین سال پر محیط ایک طویل قانونی جنگ ،گواہوں اور تفشتیشی افسروں کے قتل کے باوجود جیونیوز کے صحافی ولی بابر کے مقدمہ قتل کا فیصلہ تو ہوگیا لیکن ان کے قاتل جن کو موت کی سزائیں سنائی گئی ہیں سو آج تک مفرور ہیں جن کے خوف سے ولی بابرکے گھر والے بھی روپوش ہیں اور اب ایک بار پھرجیونیوز کے حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔
Wali Babar
کوئی وزیر کسی فوجی آمر کے کردار پر تنقید کرے تو قیامت برپا ہوجاتی ہے جبکہ نہ تو کسی کا قتل ہوتا اور نہ ہی کسی پرقاتلانہ حملہ ہوتا ہے ۔عدلیہ کے متعلق بولاجانے والا لفظ شرم بھی توہین عدالت بن جاتا ہے لیکن صحافیوں اور عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے ۔پاکستان کے بڑے شہروں کی سڑکیں خون رنگ ہیں لیکن کہیں کوئی قیامت نہیں آتی ۔کیا صحافیوں اور عوام کو اس ملک میں جینے کا کوئی حق نہیں۔
گستاخی معاف کیا یہ ملک صرف ججوں ،سیاست دانوں اور فوجیوں کا ہے ؟حکمرانوں ،ججوں اور فوجیوںکو ریٹائر ڈہونے کے بعد بھی مراعات ملتی ہیں لیکن صحافیوںکو تمام خدمات صلہ کفن دیا جاتا ہے کیا ریاست کے اہم ستون کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے۔
جدوجہد آزادی پاکستان میں جتنی کسی سیاست دان یا جج کی خدمات ہیں اُتنی یا اُس سے زیادہ صحافت نے بھی خدمات انجام دیں ہیں ،قیام پاکستان سے قبل روزنامہ نوائے وقت، ڈان ،زمیندارسمیت دیگر صحافتی اداروں نے برصغیر کے مسلمانوں اور پاکستان کی حمائت بھر پور آواز میں کی ،لیکن پاکستان آج تک صحافیوں کیلئے خطرناک ہے ایسا کیوں؟جبکہ دیگر لوگ موج مستی میں ہیں.کیا میرے وطن میں صحافت ہی سب سے بڑا جرم ہے۔