تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری صحافیوں پر تشدد اور ان پر قتل وغارت گری کسی طور پر بھی کسی معاشرہ میں مستحسن اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہ ہمارے معاشرے کی وہ آنکھیں ہیں جو غور سے دیکھتے سمجھتے اور پھر ہم تک اطلاعات پہنچاتے ہیں صحافت کسی دور میں بھی تعریف و توصیف کا عمل نہیں رہی کوئی بھی حکمران ان سے راضی نہیں رہامگر عوا م انہیں دل و جان سے چاہتے ہیںاگر صرف حکومتی خبریں ہی عوام تک پہنچانا مقصود تھیں تو پھر ریڈیو پا کستان اور پاکستان ٹی وی ہی اس کے لیے کا فی تھے مگر دس درجن سے زائد ٹی وی چینلز کھولنے کی اجازت کی ضرورت کیوں آن پڑی؟صحافی اندر کا راز لاتے ہیں جسے (Digging of News)کہا جا تا ہے آجکل تو جو اخبار ٹی وی جتنی زیادہ تنقید کرے گا اس کا ریٹ اتنا ہی بڑھے گا کہ وہ چھپی ہوئی خبروں کو نکالتے ، کھنگھالتے اور پھر اسے عوام تک پہنچاتے ہیں اور اسی سے حکمرانوں کی اصلاح ہوتی رہتی ہے وگرنہ ون وے ٹریفک چلتی رہے تو یہ آمریت کو جنم دیتی ہے۔
پچھلے دنوں دی نیوز اخبار کے نڈر اور بے باک صحافی احمد نورانی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا وہ آئی سی یو وارڈ میں رہے مگر ان کے حملہ آوروں کا ہماری طاقتور پولیس ،تحقیقی ادارے اور ایجنسیاں آج تک پتہ نہ چلاسکی ہیںجو کہ ان کی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے آئی ایس پی آر کے جنرل غفور صاحب نے تو ہسپتال میں گلدستہ بھجوایا اور مذمت کرتے ہوئے اس کی خصوصی تفتیش کرنے کا اعلان کیا ہے ازیں قبل امسال ہی 5صحافی قتل کیے جاچکے ہیں اور پریشر ڈال کر اپنی من مرضی کی خبروں کی اشاعت کے لیے مختلف حربے تو ہر حکمران اختیار کرتا چلا آرہا ہے۔
انگریزوں کے متحدہ ہندوستان میں قابض ہوجانے پربھی چھوٹے موٹے اخبارات و رسائل تک سینسر کا شکار رہے پاکستان بننے کے بعد ایوبی آمریت نے پریس اینڈ پبلیکیشنزجاری کرکے اخبارات پر سینسر کی تلوار رکھ دی امروز مشرق پاکستان ٹائمز اور لیل و نہار جیسے اخبارات رسائل حکومتی ملکیت میں لے کر صحافت کی بنیادیں ہی ڈھا ڈالیںکہ ان میںحکومت کی مرضی کے بغیر کوئی خبر شائع نہیں ہو سکتی تھی بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں بھی کسی باضمیر صحافی کی تیار کردہ خبر یا سٹوری شائع کرنا آسمان سے تارے لانے کے مترادف رہا۔بھٹو دور میں اخبار جسارت مستقل بند کر ڈالا گیااردو ڈائجسٹ زندگی جیسے رسائل بند رہے صحافی صلاح الدین کو مسقلاً پس دیوار زنداں رکھا ضیا ء الحق دور میں صحافیوں کو کوڑے مارنے کی روایت نے جنم لیا۔ بھٹو کے دور حکمرانی میں قومی اسمبلی کے ارکان ڈاکٹر نذیر احمد اور مولانا شمس دین کو قتل کیا گیا۔
موجودہ وزیر ریلوے سعد رفیق کے والد اور لاہور کی آن شان خواجہ محمد رفیق کو دن دیہاڑے اسمبلی ہال کی غربی سڑک پرحکومتی غنڈوں نے مار ڈالا غرضیکہ گذشتہ پندرہ سالوں میں 130صحافیوں کو اپنی خصوصی خبروں کی اشاعت کی پاداش میں اگلے جہاں کو سدھار ڈالا گیا اور دھونس تشدد دبائو کا سلسلہ تو مسلسل جاری رہتا ہے حکمران سرکاری اشتہارات کی بھاری رقوم دیکر صحافیوں کے اصل نظریات کا رخ موڑتے ہیں ۔ہفت روز ہ چٹان کے جری ایڈیٹر آغا شورش کاشمیری نے کہا تھا قلم کی عصمت کابکنا ماں کے بکنے کے مترادف ہے۔صحافت بلا شرکت غیرے حکومت کا چوتھا ستون ہے بلا جواز حکومتی تعریفیں زرد صحافت میں آتا ہے اور غیر ضروری تنقید کے تیر برسانا بھی مناسب نہ ہے۔تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے حد سے بڑھ جانا دراصل صحافیانہ بد کرداری کا نام ہے جس کی ہمارے جیسے ترقی پذیر اور ہر طرف سے دشمنان دین و وطن میں گھرے ہوئے ملک کے لیینقصان دہ ہے۔
صحافت ملک کی مضبوطی کے لیے اہم عنصر ہے اگر پارٹی بازی غیر اسلامی غیر آئینی کردار ادا کیا جائے تو اس سے صحافیانہ بد دیانتی محسوس ہونے لگتی ہے اور غیر جانبدارانہ صحافت کے یہ تقاضے نہ ہیں پہلے ہی ہم لسانی علاقائی گروہی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے مشرقی پاکستان ہاتھ سے گنوا بیٹھے اب جبکہ امریکہ بھارت اسرائیل ہماری طرف ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی خشمگیں اور خونخوار نظروں سے دیکھتے اور دھمکیاں دیتے ہیں تو صحافی برادری کا کردار انتہائی ضروری ہوجا تا ہے کہ وہ تمام ایسے ملک دشمن گروہوں دہشت پسندوں و اسلام اور وطن کے غداروں کی نشاندہی کرتے رہیں اور ہماری ایجنسیاں بھی اخبارات ٹی وی پر بیان کردہ ایسی خبروں کا خصوصی نوٹس لیکر ان کا قلع قمع کرتے رہیںہمارے ملک کو پانامہ و پیراڈائز لیکس کے بخار نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
تمام بڑی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہی ہیں مغلظات تک جاری ہیںسی پیک کو ناکام کرنے کے لیے بھارتی راء کو سینکڑوں ملین روپے فنڈز دیے گئے ہیںاندرون ملک مکمل اتحاد و اتفاق قائم نہ کیا جا سکا تو ہمارے دشمن شہ پاکر پاک دھرتی کو نقصان پہنچانے سے باز نہ رہیں گے اگر اس خطہ میں ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو اس میںسبھی کا گھاٹا ہے امریکی بھارتی ،اسرائیلی گیڈر بھبکیوں کودر خور اعتنأنہ سمجھتے ہوئے ملکی صحافت اپنا مثبت کردار ادا کرے اور انہیں ایسی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے مکمل تحفظ دیا جائے اور موجودہ دور کو سابقہ ایوبی بھٹو یا ضیاء الحق دور کی طرح صحافیوں پر تشدد جیلیں اور کوڑوں سے “مزین “نہ کیا جائے تو ہی بہتر ہو گا حکمران ہوش کے ناخن لیں اپنی عادات واطوار کو بدلیں بیرون ملک جس نے بھی ملک کی عوام کا مال لوٹ مار کرکے جمع کر رکھا ہے وہ واپس لائیں کہ غلطی انسانوں سے ہی ہوتی ہے(To Err Human and to forgive divine)کی طرح آدمی غلطی کرتا ہے مگر خدائے عزو جل معاف کردیتے ہیں اپنے کرتوتوں اور مال لوٹنے کی حرکات کی خدائے بزرگ و برتراور پھر اپنے عوام سے بھی سر عام معافی کے طلبگار ہوں تو ملک میں سیاسی کشمکش ختم ہوکر ہمارے اہم مسائل بیروزگاری مہنگائی غربت دہشت گردی سے نجات مل جا ئے گی وگرنہ “سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔