بھوک مرتی صحافت

Journalism

Journalism

تحریر : عبدالجبار خان دریشک

صحافت کا شعبہ بہت مشکل شعبہ ہے اس پیشے سے وابستہ افراد کس طرح مشکل زندگی بسر کرتے ہیں شاید اس کا انداز ہر انسان کو نہ ہو اس شعبہ سے وابستہ افراد کے سروں پر ہر وقت خطرات منڈلاتے رہتے ہیں ، ہر دوسرا شخص ایک صحافی سے ناراض رہتا اسے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں خوامخواہ دشمنی مول لینی پڑتی ہے پھر اس کے باوجود ایک ورکر صحافی کو معاشرہ دونمبر لفافہ خور سمجھتا ہے

ہر سال سینکٹروں صحافی فرائض کی ادائیگی کے دوران مار دیے جاتے ہیں ، ملکی اور عوامی بھلائی کی خاطر کسی بڑے توپ خان کی کرپشن بے نقاب کرنے پر اسے گولیوں بھون دیا جاتا ہے بمب سے اڑا دیا جاتا ہے۔ دوسروں کو انصاف فراہم کرانے کے لیے جدوجہد کرنے والا صحافی خود بے انصافیوں کا شکار ہوتا ہے جب وہ ایک مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے سب کے آگے کھڑا ہوتا ہے تو جب خود اس کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہیں کھڑا ہوتا ہے ، وہ اکیلا اپنے دم پر لڑتے لڑتے شہید بنتا ہے یا غازی

ایک صحافی کو جہاں ظالموں دہشت گردوں کرپٹ مافیا کی طرف سے جان کا خطرہ ہوتا ہے تو اداروں کی طرف سے تنخواہ نہ ملنے سے بھوک سے مرنے والی موت کا بھی خطرہ رہتا ہے میڈیا انڈسٹری اتنی ظالم اور بے رحم وادی ہے جہاں ایک بڑے اینکر کی تنخواہ لاکھوں ہے تو ایک چھوٹے ورکر کی ہزاروں میں تنخواہ ہے تو وہ بھی اسے بروقت نہیں دی جبکہ کہ دور دراز فیلڈ میں کام کرنے والے اکثر صحافی تنخواہ کے بغیر رکھے جاتے ہیں ، ایک مفت سروس دینے والا فری لانس صحافی وہ کسی بھی تنخواہ کے بغیر اور وہ الٹا معاشرے میں دشمن پیدا کر رہا ہوتا ہے

اکثر صحافیوں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہوتے ہیں ظاہری ٹھاٹھ بھاٹھ والے صحافی عیدوں پر بچوں کو نئے کپڑے نہیں دلا سکتے جو ایک تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے ، گھر کرائے کا اوپر سے قرض دوسری طرف معاشرے میں مافیا کے ساتھ منہ ماری الگ ، ایسے حالات میں ایک صحافی شدید ذہنی ہجان میں مبتلا رہتا ہے

آج صحافت کے میدان میں تیس مار خاں کے لیے خبر یہ ہے کہ بھارت کی ریاست تلنگانہ میں صحافی ہیمنت راؤ جو قرض کے بوجھ میں دب چکا تھا ہیمنت راؤ نے شدید ذہنی دباؤ میں اکر آج پہلے تو اپنے 3 اور 5 سال کے معصوم بچوں کو گلا دبا کر ہلاک کیا اور پھر خود پھانسی کا پھندا گلے میں لٹکا کر موت کو گلے لگا لیا ، اس صورت حال کو دیکھ کر ہیمنت راؤ کی بیوی مینا نے خودکشی کرنے کے لیے زہر پی لیا ، تاہم اسے محلے والوں نے بروقت ہسپتال پہنچا دیا جس سے وہ زندہ تو بچ گئی پر اس کی دنیا اجڑ گئی دو بچوں اور خاوند اسے ہر پل موت کی طرف قدم اٹھانے پر ستاتی رہے گی

یہ تھی ایک صحافی کی اصل زندگی ، جو زندگی میں جنگ ہمیشہ دوسروں کی لڑتا رہا لیکن خود مفلسی کی جنگ ہار گیا

یہ جھگیاں توغریبوں کی خانقاہیں ہیں
قلندری یہاں پلنے کے بعد آتی ہے

Abdul Jabbar Khan

Abdul Jabbar Khan

تحریر : عبدالجبار خان دریشک